جرمن معاشرے میں اسلام کے مقام پر نئی بحث
2 جولائی 2015جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور دائیں بازو کے قدامت پسندوں کی دونوں جماعتیں کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو شامل ہیں۔ دونوں قدامت پسند جماعتیں کئی معاملات میں ہم خیال ہیں اور یونین جماعتیں کہلاتی ہیں۔
وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے ابھی منگل تیس جون کے روز برلن میں رمضان کے مہینے کی مناسبت سے ایک افطار استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے اور جرمنی میں مسلمان مذہبی اقلیت کی بڑی تعداد میں موجودگی کے پس منظر میں زور دے کر کہا تھا، ’’اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے۔‘‘ یہی بات بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹس عرصے سے کہتے آ رہے ہیں لیکن جنوبی صوبے باویریا کی کنزرویٹو پارٹی سی ایس یو جرمن معاشرے کی اسلام سے اس جزوی نسبت کو ماننے پر ابھی تک تیار نہیں ہے۔
انگیلا میرکل کے بیان کے بعد سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے نائب اسپیکر یوہانس زِنگہامر نے چانسلر میرکل کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے، ’’جو کوئی بھی (انگیلا میرکل کی طرف سے پیش کی گئی) اس تاریخی حوالے سے کی گئی وضاحت سے اتفاق نہ کرے، اسے اس طرح کی سوچ کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے کہ وہ اسلام کے بارے میں خوف کا شکار ہے۔‘‘
یوہانس زِنگہامر نے آج جمعرات کے روز اخبار ’پاساؤر نوئن پریسے‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’اس (اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے) کی بجائے یہ کہنا درست ہو گا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ساتھی مسلمان شہری بھی جرمنی کا حصہ ہیں۔‘‘
میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کی نسبت زیادہ قدامت پسند تصور کی جانے والی سی ایس یو کی صفوں سے اس سلسلے میں وفاقی چانسلر کی رائے سے اختلاف کرنے والوں میں کرسچین سوشل یونین کے خارجہ امور کے ماہر ہنس پیٹر اُوہل بھی شامل ہیں۔ کیتھولک نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق ہنس پیٹر اُوہل نے کہا ہے، ’’ظاہر ہے کہ جو مسلمان جرمنی میں رہتے ہیں، وہ جرمنی کا حصہ ہیں۔ لیکن اسلام ایک مذہب کے طور پر جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
ہنس پیٹر اُوہل کے بقول، ’’جرمنی کے تشخص پر مسیحی اور یہودی اثرات فیصلہ کن رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے۔ اس طرح کے (میرکل کے بیان جیسے) بار بار دیے جانے والے بیانات لوگوں کو ذہنی عدم شفافیت اور ابہام کا شکار بنا دیتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس چانسلر میرکل نے برلن میں افطار استقبالیے سے خطاب میں کہا تھا کہ دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کے ساتھ رابطوں میں آنکھوں اور کانوں کے کھلے پن کی گہرائی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے، ’’اس طرح دوسروں کی رائے اور نقطہء نظر کے لیے خود اپنی جڑوں کی نفی کیے بغیر احترام پیدا ہو گا۔ اس لیے کہ یہی وہ تنوع ہے، جو ہمیں معاشرتی اور ثقافتی طور پر زیادہ مضبوط اور کثیرالجہتی بناتا ہے۔‘‘