جرمن پالیسی برائے توانائی میں بھارت کی دلچسپی
31 مئی 2011بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے اس حوالے سے مذاکرات کے لیے پیر کو اپنے جرمن ہم منصب گیڈو ویسٹر ویلے کو خوش آمدید کہا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے پانچ ممالک کے دورے کے دوسرے مرحلے میں وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی نے پیر کو 2022ء تک جوہری توانائی ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، بھارت میں اس میں بہت دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔
ویسٹر ویلے نے کہا: ’وہ (بھارتی حکام) اس بات پر غور کر رہے کہ ہم جرمنی میں اپنی توانائی کی پالیسی پر ازسر نو غور کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہر بات ٹھیک طور سے سمجھی نہ گئی ہو، تاہم قابل تجدید توانائی میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔‘
جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ ’کامیاب اقتصادی‘ کہانی بن سکتی ہے، جس میں جرمنی کو سولر اور وِنڈ پاور جیسے شعبوں میں ٹیکنالوجی لیڈر کی حیثیت حاصل ہو۔
بھارت دنیا کا سب سے بڑا سولر پاور انرجی کا منصوبہ تشکیل دے رہا ہے، جس کی پیداواری صلاحیت ایک سو پچیس میگاواٹ ہو گی۔ جرمنی کا ترقیاتی بینک اس منصوبے کے لیے اسّی فیصد مالی وسائل، یعنی ڈھائی سو ملین یورو فراہم کرے گا۔
بھارت اور جرمنی کے درمیان ان مشاورتی نشستوں میں جن دیگر موضوعات پر بات ہوگی، ان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے برلن حکومت کی کوششیں شامل ہیں۔ بھارت بھی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا خواہاں ہے۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ میں اصلاحات پر بھی بات چیت کریں گے جبکہ جرمنی بھارت کو ایک سو چھبیس یورو فائٹر جیٹس فروخت کرنے کے لیے معاہدہ بھی چاہتا ہے، جن کی مالیت سات ارب یورو ہے۔
بھارت گزشتہ ماہ پہلے ہی جنگی طیارے خریدنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو ردّ کر تے ہوئے برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور اسپین کی جانب سے مشترکہ طور پر بنائے جانے والے یورو فائٹر اور فرانس کے رافال کو شارٹ لِسٹ کر چکا ہے۔
بھارت نے اس معاہدے کے لیے سویڈن کے ساب JAS-39 اور روس کے مِگ 35 کو بھی رد کر دیا تھا۔ لاکہیڈ اور بوئنگ امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کو طیارے فراہم کرنے والی اہم کمپنیاں ہیں۔ انہوں نے بھارت سے اس معاہدے کے حصول کے لیے وسیع تر کوششیں کی تھیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد