جرمنی میں بھی ’مشتبہ شخص کی گردن پر پولیس اہلکار کا گھٹنا‘
17 اگست 2020جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف سے پیر سترہ اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پولیس کی ایک کارروائی کے دوران یہ واقعہ اتوار سولہ اگست کی شام ڈسلڈورف شہر کے پرانے اندرونی حصے میں پیش آیا۔
اس واقعے کی ایک ویڈیو کے سوشل میڈیا پر سامنے آ جانے کے بعد صوبائی وزارت داخلہ نے کہا کہ پولیس کو کسی غیر قانونی کارروائی کی اجازت نہیں، ''اسی لیے اس واقعے کی چھان بین اور اس کے نتائج کو قطعی غیر جانبدارانہ رکھنے کے لیے اس کی تفتیش خود ڈسلڈورف کی پولیس نہیں بلکہ اسی صوبے کے ایک قریبی شہر ڈوئسبرگ کی پولیس کرے گی۔‘‘
امریکی شہری جارج فلوئڈ کی موت کی یاد تازہ ہو گئی
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی طرف سے کارروائی کے دوران ایک اہلکار نے اپنا گھٹنا زمین پر گرے ہوئے ایک شخص کی گردن پر رکھا ہوا ہے۔ یہ واقعہ جرمنی میں اس لیے بہت تشویش کی وجہ بنا کہ دیکھنے والوں کے ذہنوں میں اس وجہ سے فوری طور پر امریکی شہر مینیاپولس میں مئی کے اواخر میں پیش آنے والے ایک واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔
یہ واقعہ ایک افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی موت کا واقعہ تھا، جس کی گردن ایک آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار نے اپنے گھٹنے سے دبا رکھی تھی اور جارج فلوئد بار بار کہتا جا رہا تھا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ اس پولیس آپریشن کے نتیجے میں جارج فلوئڈ کی موت واقع ہو گئی تھی۔ پولیس کی ہاتھوں کسی افریقی نژاد امریکی شہری کی یہ ہلاکت، جو اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھی، امریکا اور دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں پولیس کی زیادتیوں اور نسل پرستی کے خلاف وسیع تر احتجاجی مظاہرون کی وجہ بن گئی تھی۔
ڈسلڈورف پولیس کے مطابق یہ واقعہ امریکا مینمینیاپولس میں پیش آنے والا واقعے جیسا بالکل بھی نہیں۔ اس لیے کہ اس شہر کی پولیس نے کسی بھی مشتبہ شخص کے خلاف طاقت کا کوئی بے جا استعمال نہیں کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب ڈسل ڈورف شہر کے وسطی حصے میں ایک ریستوراں کے قریب بدامنی پھیلانے والے افراد کے ایک گروپ کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس طلب کی گئی تھی۔
'جارج فلوئڈ کے واقعے سے کوئی موازنہ نہیں‘
اس واقعے کے بعد پولیس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈسلڈورف شہر میں اتوار کی شام کارروائی کے دوران وہاں موجود ایک ایسے نوجوان نے بھی مداخلت کی تھی، جس کا دراصل اس پورے واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب پولیس اہلکاروں نے اس کی شناختی دستاویزات چیک کرنا چاہیں، تو اس نے مبینہ طور پر ان سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔
پولیس کے مطابق اس واقعے کے بعد اس نوجوان کو اس کی شناخت کی خاطر ایک مقامی پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا، جس کے کچھ دیر بعد اسے اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس ویڈیو کا اب اس حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا جائے گا کہ آیا اس کارروائی کے دوران متعلقہ پولیس اہلکار کسی بھی طرح کی زیادتی کے مرتکب ہوئے؟
صوبائی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے پیر کے روز کہا، اس ویڈیو کا پوری طرح جائزہ لیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ پولیس اہلکاروں نے کن حالات میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ پولیس اپنے رویے میں غلطی کی مرتکب ہوئی، تو اس کا باقاعدہ عملی نتیجہ بھی نکلے گا۔‘‘
م م / ع ا (ڈی پی اے)