150711 Umwelt Studium
4 اگست 2011آج کل مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں ایسے 350 سے زیادہ مضامین کی اعلیٰ تعلیم دی جا رہی ہے، جن کا تعلق ماحول، آب و ہوا اور قابل تجدید توانائیوں سے ہے۔ اِنہی میں سے ایک مضمون ہے، ’موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی کی معیشت‘، جو شمالی جرمن شہر زُوڈربرگ میں پڑھایا جا رہا ہے اور جس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے۔ جرمن طلبہ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد اِن شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ تقریباً دو تہائی طلبہ کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے اور وہ جرمنی کو تحفظ ماحول کے اقدامات کے حوالے سے بھی ایک مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
برازیل سے آئی ہوئی طالبہ بیانکا سُوزا کرُوپِنسک بتاتی ہیں:’’مجھے یہاں نہ صرف تعلیم کے دوران بلکہ جرمنی میں اپنے روزمرہ معمولات کے دوران بھی ماحول کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہاں لوگ ماحول کا خیال رکھتے ہیں، فضائی آلودگی کا سوچ کر کار کی بجائے ٹرین استعمال کرتے ہیں۔‘‘
جہاں بیانکا کے خیال میں جرمنی میں لوگوں میں تحفظ ماحول کا شعور بہت گہرا ہے، وہاں اُس کی ساتھی جرمن طالبہ باربرا کوئلش اس خیال سے زیادہ متفق نہیں ہے:’’بلاشبہ لوگوں کے ذہنوں میں تحفظ ماحول کا خیال تو پہنچ چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کو عملی شکل کسی حد تک دیتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آج کل ماحول پر بات کرنا ایک طرح سے فیشن کا حصہ بن چکا ہو؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک طرح کی نفسیاتی بیماری بن چکی ہے کہ لوگ کہتے تو ہیں کہ ’اوہ خدایا! یہ کتنی بری بات ہے‘ لیکن پھر بھی کرتے وہی کچھ ہیں، جو وہ اب تک کرتے آئے ہیں کیونکہ وہ اُنہیں زیادہ آسان لگتا ہے۔‘‘
اپنی تعلیم کے دوران یہ طالبات یہ سیکھ رہی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں پانی کی معیشت پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نہ صرف زمین، نباتات اور ماحولیاتی کیمسٹری کے بارے میں بہت کچھ جان رہی ہیں بلکہ یہ بھی سیکھ رہی ہیں کہ موسم کیسے بنتے بگڑتے ہیں۔
ترقی پذیر ملکوں میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی کے باعث نہ تو ٹیکنالوجی کے میدان میں مطلوبہ ترقی ہو رہی ہے اور نہ ہی موسیماتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ ان طلبہ کہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پانی اور صحت و صفائی بنیادی انسانی حقوق ہیں، جن کے حصول کے لیے جدوجہد تمام تر مشکلات کے باوجود جاری رکھی جانی چاہیے۔
انڈونیشیا سے وظیفے پر آئے ہوئے طالبعلم آننگ باگُوس ستیوان بتاتے ہیں:’’ہم یہاں آبی وسائل کے تحفظ، نکاسیء آب اور پینے کے پانی کے بارے میں ہی نہیں بلکہ سیاست اور ماحولیاتی معیشت کے بارے میں بھی سیکھتے ہیں اور یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘
انڈونیشیا کا یہ طالبعلم سردست تین مہینے کے ایک تربیتی کورس پر واپَس اپنے وطن جا رہا ہے، جہاں وہ نکاسیء آب کے منصوبوں کو جانچے گا۔ ساتھ ساتھ وہ خاص طور پر اپنے ملک کے دُور اُفتادہ دیہات کے باسیوں کو صاف پانی تک رسائی میں بھی مدد دینا چاہتا ہے۔
رپورٹ: الیگذانڈرا شیرلے / امجد علی
ادارت: شامل شمس