جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی برقرار
20 دسمبر 2010شمالی کوریا کی حکومت نے پیر کو اعلان کیا کہ جنوبی کوریا کی فوجی مشقوں کے جواب میں پیونگ یانگ حکومت کسی فوجی ردعمل کا اظہار نہیں کرے گی۔ اس کمیونسٹ ملک کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوبی کوریا جنگ کے جذبے کے زیر اثر ہے اور دانستہ مختلف اقدامات کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کی سرکاری خبر ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکہ اور اس کے اتحادی جنوبی کوریا پر کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔
پیر کو جنوبی کوریا کے توپخانے نے 90 منٹ کی جنگی مشقیں مکمل کر لیں۔ شمالی کوریا نے ان مشقوں کو سیئول حکومت کے لاپرواہ اور بچگانہ رویے کی عکاس قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس سے جنوبی کوریا کے امن کا داعی ہونے کے دعوے کی قلعی کھل گئی ہے۔ جزیرہ نما کوریا پر 23 نومبر سے کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
جنوبی کوریا کی جانب سے توپخانے کی مشقوں میں اصلی گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ مشقوں کے لئے بحیرہء زرد کا متنازعہ سمندری علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس دوران خاص طور پر بھاری توپخانے کے فائر کو اہمیت دی گئی۔ آرٹلری فائر کے دوران بحیرہء زرد کے جزیرے کے مکینوں اور وہاں موجود صحافیوں کو زیر زمین محفوظ مقامات میں مقیم کی سخت ہدایت جاری کی گئی تھی۔ اس حوالے سے جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جنوبی کوریا کی فوج مستقبل میں شمالی کوریا کی کسی بھی فوجی مہم جوئی کا فوری طور پر جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔
بحیرہء زرد کے علاقے میں جنوبی کوریا کی بحریہ کے دس جنگی جہاز لنگر انداز ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ساحلی پٹی پر جنوبی کوریا کے جنگی طیاروں کو بھی الرٹ رکھا گیا ہے۔ سیئول حکومت کا مزید کہنا ہے کہ وہ اپنے تحفظ اور خود مختاری کا ہر ممکن انداز میں دفاع کرنے کا عمل جاری رکھے گی۔
خطے کی تازہ صورت حال کے تناظر میں جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان نے بھی کوریائی جزیرہ نما کے حالات کے تناظر میں اپنی کابینہ کو چوکس اور خبردار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ امریکہ نے بھی اپنے حلیف جنوبی کوریا کی فوجی مشقوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ہونے والا اجلاس آٹھ گھنٹے تک جاری تو رہا لیکن شرکاء کسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ اسی خطے میں ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان سول نیوکلیئر معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ اس سمجھوتے کے بعد دونوں ملک جوہری ٹیکنالوجی اور آلات کا تبادلہ کر سکیں گے۔ معاہدے کی دستاویز پر دستخط جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں کئے گئے۔ یہ امر اہم ہے کہ جاپان نصف درجن کے قریب ملکوں کے ساتھ دو طرفہ سول جوہری معاہدوں کو حتمی شکل دے چکا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک