جشن کی خوشی سے موت کا سفر
15 جولائی 2016جمعرات کی شب فرانس کے شہر نِیس میں ایک ٹرک 1.3 کلومیٹر تک انسانوں کے اُس ہجوم کو روندتا چلا گیا، جو فرانس کے قومی دن کے موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ دنیا بھر میں اس ہولناک حملے کی مذمت کی جارہی ہے۔
اس موقع پر موجود ٹوئٹر کی ایک صارف نے لکھا،’’ حملے کے وقت میں اپنے بیٹے کے ساتھ نِیس میں موجود تھی، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری جان بچ گئی لیکن ہم اس وقت کے ہنگامے اور اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔‘‘
سوشل میڈیا کی ایک صارف منزہ اکرام نے یہ سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں کو کہاں سے پیسہ، اسلحہ، سکیورٹی میں مدد، خفیہ معلومات اور بارودی مواد مل رہا ہے ؟
انوپم کھیر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’نِیس پر ہونے والا حملہ پاگل پن اور بزدلی کی مثال ہے، دنیا کو متحد ہو کر اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستانی سیاست دان اسد عمر نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا،’’نِیس حملہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ دہشت گردی اور ان کے متاثرین کا تعلق کسی ایک ملک یا ایک مذہب سے نہیں ہے، اس وقت ہم سب کو متحد ہونا چاہیے۔‘‘
اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد میں بچے بھی شامل تھے۔ سوشل میڈیا صارف مارک ڈیکسٹر نے لکھا کہ’’دہشت گرد انسانیت سے بہت دور چلے گئے ہیں کوئی ’انسان‘ کیسے بچوں کو ٹرک سے روند سکتا ہے۔‘‘
ٹوئٹر کے ایک صارف نے لکھا کہ نِیس حملہ ظاہر کرتا ہے کہ اب دہشت گردوں کو اجتماعی قتل کے لیے بم نہیں چاہیے ہیں وہ تو گاڑیوں کے ذریعے بھی قتل عام کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے بھی نِیس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
صحافی طلعت حسین نے لکھا کہ نِیس میں ٹرک کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ دہشت گرد اب حملہ کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر رہے ہیں۔