جلاوطن افغان ویمن فٹ بال ٹیم کھیل میں واپسی کے لیے بے تاب
22 مارچ 2023شدت پسند طالبان نے ڈیڑھ سال قبل کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو فاطمہ مرسل سادات افغان خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ تھیں اور ایک طرح سے وہ اب بھی اس ٹیم کا ایک حصہ ہی ہیں۔ یہ بیس سالہ نوجوان کھلاڑی میلبورن وکٹری ایف سی اے ڈبلیو سی کی شرٹ پہنتی ہیں۔ اس میں آخری تین حروف یعنی اے ڈبلیو ٹی ''افغان ویمن ٹیم‘‘ کا مخفف ہیں۔
ایک سال قبل اس آسٹریلوی کلب نے مرسل سادات اور ان کی ہم وطن کھلاڑیوں کو ''فٹ بال میں افغان خواتین کی قومی ٹیم کی واپسی کی حمایت‘‘ کے نعرے کے تحت کھیلنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ افغان خواتین ساتویں آسٹریلوی لیگ میں کھیل رہی ہیں۔
مرسل سادات کہتی ہیں، ''ہمیں جتنی مدد ملی، اس سے ہم آسٹریلیا میں اچھی طرح سے آباد ہو گئے ہیں۔ زندگی بہت اچھی یا بہت بری نہیں کیونکہ ہم سب اپنے خاندانوں کے معاملات میں جدوجہد کر رہے ہیں اور جذباتی اور مالی طور پر ان کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘
جب اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد کابل افراتفری کا شکار ہوا تو آسٹریلوی حکومت نے افغان بین الاقوامی کھلاڑیوں وہاں سے نکال لیا تھا۔ اس کے چار ماہ بعد مرسل سادات کا خاندان فرار ہو کر ایران چلا گیا۔
سادات کے مطابق، ''(کھلاڑیوں کے )خاندانوں کی اکثریت اس وقت ملک سے باہر ہے لیکن کچھ خاندان ملک چھوڑنے کے متحمل نہیں تھے اور وہ اب بھی اپنے دلوں میں خوف کے ساتھ افغانستان میں موجود ہیں۔‘‘
رشتہ داروں کے لیے خوف ان جلا وطن فٹبالروں کا مستقل ساتھی ہے۔ سادات کہتی ہیں، ''ہم سب ڈرتے ہیں کہ اگر طالبان کو ہمارے اہل خانہ مل گئے تو ہماری وجہ سے ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔‘‘
فیفا رینکنگ سے باہر
فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا اور ایشین فٹ بال کنفیڈریشن (اے ایف سی) کے مطابق کابل سے ان کی پرواز کے ساتھ ہی افغانستان کی خواتین کی قومی ٹیم کا وجود ختم ہو گیا تھا۔ 2022 ء کے اوائل سے افغانستان کی خواتین ٹیم فیفا کی درجہ بندی میں شامل نہیں۔
فروری کے آخر میں افغانستان فٹ بال فیڈریشن (اے ایف ایف) کی طرف سے خواتین کی ایک نئی قومی ٹیم تشکیل دینے کے اعلان نے ایک ہلچل مچا دی تھی اور بیرون ملک مقیم افغان خواتین کو اس ٹیم میں شمولیت کے لیے درخواست دینے کی دعوت دی۔ بظاہر اس بیان کا ذمہ دار شخص البانیہ میں مقیم ہے اور اس کا نام اب بھی سرکاری طور پر اے ایف ایف کے میڈیا ڈائریکٹر کے طور پر درج ہے اور اسے فیفا کی حمایت حاصل تھی۔
افغان ویمن فٹبال ٹیم کی سابقہ کپتان خالدہ پوپل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فیڈریشن کی طرف سے اس اعلان کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ فیڈریشن نے مقامی میڈیا پر اعلانات کیے کہ افغانستان سے باہر کوئی بھی ان کی نمائندگی نہیں کر سکتا اور ان کا افغان خواتین کی قومی ٹیم دوبارہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘
پوپل برسوں سے ڈنمارک میں مقیم ہیں اور انہوں نے اپنی تنظیم ''گرل پاور‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے پناہ گزین خواتین کو کھیلوں کے ذریعے زیادہ خود اعتمادی اور آزادی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
سن دو ہزار اکیس میں یہ پوپل اور ان کی تنظیم ہی تھی، جس نے افغان قومی ٹیم کو آسٹریلیا سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ جنوری کے اوائل میں،پوپل اور نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے برطانوی اخبار دی گارڈین کے ایک مشترکہ مضمون میں فیفا سے مطالبہ کیا کہ وہ میلبورن میں جلاوطن افغان ٹیم کو باضابطہ طور پر افغانستان کی قومی ٹیم کے طور پر تسلیم کرے۔
فیفا کی خاموشی
پوپل اس بات پر خاصی ناراض ہیں کہ فیفا نے آسٹریلیا میں ٹیم کی بار بار کی درخواستوں اور ان کےملالہ کے ساتھ مشترکہ مضمون لکھنے کے اقدام کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ پوپل نے کہا، ''یہ شرم کی بات ہے کہ جو تنظیم خود کو فٹ بال کی گورننگ باڈی کہتی رہی ہے، اس نے ابھی تک کم از کم کھلاڑیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک بھی بیان نہیں دیا ہے۔‘‘
فیفا نے ڈی ڈبلیو کی درخواست کا بھی جواب نہیں دیا۔ پوپل کے مطابق افغانستان میں خواتین فٹبالرز اب بھی خطرے میں ہیں۔ انہون نے کہا، ''ہماری انڈر 15 قومی ٹیم اب بھی افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔‘‘
فاطمہ مرسل سادات اپنے آبائی ملک میں موجود کھلاڑیوں سے بھی رابطے میں ہیں، جنہوں نے ان سے اور پوپل سے مدد مانگی ہے، "میں بہت مجرم سی محسوس کرتی ہوں، جب میں ان کی مدد نہیں کر سکتی اور میں بہت کچھ نہیں کر سکتی۔ میں ان کی آواز بننے اور ان کی آواز کو اس مقام تک بلند کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہوں، جہاں پوری دنیا دیکھ سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
انہون نے مزید کہا، ''میرے مستقبل کے لیے بہت سے خواب ہیں اور ان میں سب سے اہم ایک بار پھر افغانستان کی قومی ٹیم کے لیے کھیلنا اور افغانستان کو ایک غیر محدود ملک کے طور پر دیکھنا ہے۔‘‘
سٹیفان نیسلر (ش ر⁄ ا ا)