جنرل اسمبلی اور مالیاتی بحران
24 ستمبر 2008ذمے دار حلقوں میں مالیاتی منڈیوں اور بینکوں کے نظام پنہاں خطرات پر غور کیا جا رہا ہے۔ جنرل اسمبلی میں بہت سے ممالک کے سربراہان کی تقاریرمیں بھی اس بارے میں تفکرات کا اظہار کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر جارج بش کی تقریر چوبیس منٹ تک جاری رہی۔ اس پوری تقریر میں انہوں نے ایک بات بھی ایسی نہیں کہی جسے خیال انگیز یا قابل غور کہا جا سکتا ہو۔ انہوں نے سترہ منٹ تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کو حوالے سے بات کی اور باقی وقت عمومی موضوعات کو دیا۔ ان کی تقریر میں کوئی ٹھوس بات یا معنویت نہیں تھی۔
ان کے بعد آنے والے مقرر فرانس کے صدر سارکوزی تھے انہون نے اس کمی کو پورا کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اختتامی مقرر سیکریٹری جنرل بن کی مون ہی کی طرح سے سارکوزی نے بھی کھلی منڈی کی جادوئی طاقت پر اندھے اور بلا تنقیدی یقین رکھنے سے خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادیات کو اخلاقیات اور ذمےداری سے الگ نہیں کیا جا نا چاہئے۔
اب چاہے ان کی بات پر نقطہ بہ نقطہ یقین کیا جائے یا نہیں ۔فرانس کے صدر سرمایہ داری مین ردوبدل کا کام فوری طور پر شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس کے طریقہ کار اور افعال کو جانچنا چاہتے ہیں بلکہ وہ طلع اور عالمگیریت کے نتیجے میں نقصان اٹھانے والے انسانوں پر بھی توجہ دینا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں عالمی مالیاتی بحران کے پس منظر میں شروع ہی سے مقررین نے مالیاتی منڈیوں اور مالیاتی نظام پر تنقیدی نظر ڈالی نکراگوا اور برازیل کے صدر نےاجلاس کے پہلے ہی روز اس موضوع کو چھیڑا۔ اس ہم خیالی سے امید بندھتی ہے اوراندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں کے درجنوں سربراہان بھی اس کی حمایت کریں گے۔
جرمنی کی ترقیاتی امداد کی وزیر ویزورک سوئل نے نیویارک میں ہونے والی ایک متوازی تقریب میں پہلے ہی خبرادار کیا ہے کہ مالیاتی بحران کی وجہ سے غربت کے خلاف جنگ کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ جرمن وزیر خارجہ سٹین مائر نے کہا کہ دنیا میں بہت بڑی تعداد میں انسان صاف پانی سے محروم ہیں اور اس کے نتیجے میں نئی جنگیں چھڑ سکتی ہیں۔
دنیا کو لاحق یہ خطرات اقوام متحدہ کے اس اجلاس کے ایجنڈے پر اوپر آگئے ہیں۔ عموماان کے اسباب کے آپس کے ربط کو دیکھا نہیں جاتا۔ جنرل اسمبلی میں دنیا کے موجودہ سیاسی بحرانوں کے حل کی کوششیں ویسے بھی شاذ و نادر ہی کی جاتی ہیں۔ اس لئے ان کی وجہ سے پس پردہ ان وجوہات اور خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ عالمی برادری کا فورم ہے اور اس میں خوش قسمتی سے ایسے ملک اقلیت ہی میں ہیں جو صرف خود اپنے فائدے یا استعماری انداز کی سوچ رکھتے ہیں۔
نیویارک سے تھامس نیلز کی رپورٹ