جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
26 اکتوبر 2009جنوبی جرمنی سے شائع ہونے والا اخبار زوڈ ڈوئچے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی بڑی پیشقدمی کو اُم الاحزاب قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے:
خوف وہراس اِس کٹر مسلمان ملک کے شہریوں کی روحوں تک میں سرایت کر چکا ہے۔ بہت عرصے تک زیادہ تر پاکستانی طالبان کے خاموش حامی بنے رہے۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ اسلام کا دفاع کرنے والی ایسی قوت ہیں، جنہیں مغربی دُنیا تباہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ پاکستانی قیادت کے اتحاد کے نتیجے میں ریاست اور اُس کے شہری دونوں انتہا پسندوں کا ہدف بن گئے۔ اب پے در پے خود کُش حملوں اور اُن میں بیسیوں شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد پورا ملک ہمہ وقت ہنگامی حالت میں ہے اور عوام طالبان کے خلاف ہو چکے ہیں۔
برلن سے شائع ہونے والے اخبار ٹاگیز سائی ٹُنگ کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل اَشفاق پرویز کیانی ایک مشکل صورتحال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:
گذرے ہفتوں کے دوران فوج نے ذرائع ابلاغ میں امریکہ کے ساڑھے سات ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائے رکھی۔ کیانی ہر قیمت پر اِس تاثر سے بچنا چاہتے ہیں کہ وہ ملک کو امریکہ کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں۔ ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ آیا جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف جنگ سرے سے جیتی بھی جا سکے گی۔ دو ہی صورتیں ہیں: یا تو طالبان پر قابو پا کر پاکستانی فوج مادرِ وطن کی نجات دہندہ اور پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن کر ابھرے گی اور یا پھر وہ طالبان کے ساتھ ایک ایسی لمبی گوریلا جنگ میں پھنس جائے گی، جس سے نکلنے کے لئے اُس اپنے حریفوں کے ساتھ سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔ ایسا ہوا تو پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی تشویش ناک حدوں تک پہنچ جائے گی۔ ہر دو صورتوں میں پاکستانی جمہوریت کے لئے حالات اچھے نظر نہیں آتے۔
زیورخ سے شائع ہونے والے اخبار نَوئے زیوریشر کے مطابق جنگ زدہ علاقہ صرف تقریباً چھ ہزار چھ سو مربع کلومیٹر ہے لیکن پاکستانی فوج کا یہ آپریشن خطرناک اور مشکل ہے۔ اخبار لکھتا ہے: اِس علاقے کی پانچ لاکھ آبادی میں اکثریت پشتونوں کی ہے، جو روایتی طور پر ہر بیرونی طاقت کے مخالف رہے ہیں۔ امریکہ نے گذرے مہینوں کے دوران پاکستانی فوج کو خصوصی حفاظتی جیکٹیں اور اندھیرے میں دیکھنے والے آلات بھی فراہم کئے ہیں لیکن اِس آپریشن کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ گذرے برسوں میں بھی فوج اِس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لانے کی متعدد کوششیں کر چکی ہے۔ اوپر سے چند ہی ہفتوں میں سردیاں بھی شروع ہو رہی ہیں۔
اخبار نوئیس ڈوئچ لانڈ کے مطابق بھارت میں حکومت فوجی پیشقدمی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کی دہری حکمتِ عملی کے ذریعے تقریباً چار عشروں سے چلی آ رہی ماؤ نواز بغاوت پر قابو پانا چاہتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے:
ماؤ نواز گروپوں کی طاقت میں اَسی کے عشرے میں شمالی بھارتی ریاستوں جھاڑ کھنڈ اور چھتیس گڑھ کے معدنی ذخائر سے مالا مال جنگلاتی علاقوں میں اضافہ ہوا۔ جیسے جیسے بھارت ترقی کرتا گیا، ویسے ویسے آدی واسی کہلانے والے مقامی باشندوں کے لئے زمین تنگ ہوتی گئی اور وہاں بڑے بڑے ڈَیم، معدنی کانیں اور کارخانے بنتے گئے۔ پُر امن طور پر بھی اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کرنے والے مقامی باشندوں کو پولیس ماؤ نواز باغیوں ہی میں شمار کرتی ہے۔ اِن شہریوں اور اِن کے حقوق کے لئے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی ترقی چاہتی ہے تو پہلے اُسے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔
امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ