جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات، جرمن پریس کی نظر میں
23 نومبر 2009پشاور ميں گزشتہ دِنوں خفيہ ادارے آئی ايس آئی کی عمارت پر خود کش حملے ميں 19افراد ہلاک اور تقريباً 100زخمی ہوگئے۔ اخبار Berliner Zeitung تحرير کرتا ہے کہ اس حملے سے يہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان ميں فوجی جنرلوں اور طالبان ميں کوئی ايک عشرے سے موجود رفاقت ٹوٹ چکی ہے۔ فوج، ان گروپوں کو جو اس وقت ملک کو بم حملوں کے ذريعے درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہيں،سن 1980کے عشرے سے افغانستان اور بھارت کے زير انتظام کشمير ميں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ ليکن ايک زمانے ميں عسکريت پسند گروپوں کو اسلحہ، تربيت اور مالی معاونت مہيا کرنےوالی پاکستانی فوج اور ان عسکريت پسند گروپوں کے درميان رفاقت کا يہ رشتہ اب ٹوٹ چکا ہے۔
اگرچہ فوج افغانستان کے شدت پسندوں کا بھر پور طور پر قلع قمع نہيں کر پا رہی، تاہم پاکستان ميں فعال گروپوں پر اس کا دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
ہفت روزہ Der Spiegel نے امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن کا ايک انٹرويو شائع کيا ہے۔ کلنٹن نے اکتوبر کے آخر ميں پاکستان کے دورے کے موقع پر کہا تھا، 'ميرے لئے يہ يقين کرنا مشکل ہے کہ پاکستانی حکومت کے اراکين کو القاعدہ کے دہشت گردوں کے خفيہ ٹھکانوں کا علم نہيں اور وہ چاہتے ہوئے بھی انہيں پکڑ نہيں سکتے۔ جب Der Spiegel نے ہليری کلنٹن سے پوچھا کہ ان کے ان الفاظ کا کيا مطلب ہے تو انہوں نے کہا:
'ہميں بڑی فکر ہے کہ القاعدہ پاکستان ميں چھپنے کے لئے ٹھکانے تلاش کرچکی ہے۔ ان دہشت گردوں اور پاکستانی طالبان ميں اب بھی گہرے روابط ہيں اور وہ پاکستان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہيں۔حال ہی ميں پاکستان کی سول حکومت نے اس خطرے کو پہچانا ہے اور وہ فوج کے ساتھ مل کران دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے بھر پور کارروائی کررہی ہے جو فوجی اور حکومتی تنصيبات اور مساجد اور يونيورسٹيوں پر مسلسل حملے کررہے ہيں۔ امريکہ القاعدہ کے رہنماؤں کو گرفتار یا ہلاک کرنے کو بہت اہميت ديتا ہے۔
فرانسيسی اخبار Le Mond Diplomatique نے اپنی جرمن اشاعت ميں لکھا ہے کہ بھارت سات سے 19 دسمبر تک کوپن ہیگن ميں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس ميں کليدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم خود ملک کے اندر پہلے کی طرح اب بھی يہی نعرہ ہے کہ اقتصادی اور تکنيکی ترقی، ماحولیاتی تحفظ سے زيادہ اہم ہے۔ اس طرح بھارت کا موقف وہی ہے جو جی سیونٹی سیون گروپ کے ترقی پذير ملکوں کا کہ ماحولیاتی تبديلی کی وجہ صنعتی ممالک ہيں اورپہلے انہيں مضر گيسوں کے اخراج ميں کمی کرنا چاہئےجبکہ غريب ملکوں کو ترقی کرنے کا حق ہے اور وہ اپنی ترقی کے دوران مضر گيسوں اور مادوں کا بڑی مقدار ميں اخراج جاری رکھ سکتے ہيں۔ بھارت ميں اس پر اتفاق ہے کہ ماحولیاتی تبديلی پر قابو پانے کے مؤثر اقدامات کا آغاز صنعتی ممالک کو کرنا چاہئے۔ تاہم ماحولیاتی کونسل کی سنيتا نرائن کا کہنا ہے کہ شمال کے صنعتی ممالک اس اصول کو تسليم نہيں کرتے کہ انہيں اپنے مضر مادوں کے اخراج کو کم کرنا چاہئے تاکہ جنوب کے غريب ملک ترقی کرسکيں۔ ليکن شمال کے ممالک يہ مظاہرہ کرسکتے ہيں کہ وہ ترقی کی بلند سطح پر پہنچ جانے کے ساتھ مضر مادوں کے اخراج کو بھی کم کر سکتے ہيں تو بھارت بھی ان سے سيکھتے ہوئے ايسا ہی کرسکتا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: ندیم گِل