جنوبی قاہرہ میں پولیس اسٹیشنوں پر حملے، 17 افراد ہلاک
30 جنوری 2011ہلاک ہونے والوں میں سے 12 افراد کوبیبا کے علاقے میں پولیس اسٹیشن پر حملے کی کوشش کے دوران ہلاک کیا گیا جبکہ باقی پانچ ناصر نامی علاقے میں ہلاک کئے گئے۔ ان واقعات میں درجنوں دیگر افراد شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مصر میں گزشتہ سات روز سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک کم از کم 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے متعدد علاقوں میں لوٹ مار اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
مظاہرین مصر پرگزشتہ 30 برسوں سے حکومت کرنے والے حسنی مبارک سے عہدے چھوڑنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز مصری صدر حسنی مبارک نے انہی احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں حکومت برطرف کر کے نئی حکومت کا اعلان کیا تھا، تاہم اس اعلان کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کسی قسم کی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
دوسری جانب اتوار کی صبح پیش آنے والے ایک واقعے میں جنوبی مصر کی ایک جیل پر حملے کے دوران ایک اعلیٰ عہدیدار کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ سینکڑوں قیدی فرار ہو گئے۔ حکام کے مطابق فیوم کے صحرائی علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے میں تقریبا 700 قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والا سرکاری اہلکار ایک جنرل تھا۔
مصری میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وزارت دفاع سے منسلک ایک اور جنرل کو مشتعل ہجوم نے اغواء کر لیا ہے۔ ملک بھر میں جاری ان مظاہروں میں سیاسی، جمہوری اور معاشی اصلاحات کے مطالبات کئے جا رہے ہیں جبکہ حکومت پر مہنگائی اور بے روزگاری سے نہ نمٹنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔
دریں اثناء امریکہ نے بھی مصر پر جمہوری اصلاحات کے لئے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی محض ’ایک تبدیلی‘ نہیں ہونی چاہئے بلکہ وہاں جمہوری اصلاحات اور عوامی آزادی کو ہر ممکنہ حد تک یقینی بنایا جائے۔
ہفتے کے روز فرانس میں بھی حسنی مبارک کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، جس میں حسنی مبارک سے فوری طور پر عہدہ صدارت چھوڑنے کے مطالبات کئے گئے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے مصری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال ہر گز نہ کرے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عدنان اسحاق