1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی پنجاب میں بدترین سیلاب، سیاسی لیڈرکہاں ہیں؟

13 اگست 2010

شدید سیلاب کی وجہ سے بد ترین تباہی سے دو چار ہونے والے اس علاقے میں جاری امدادی سر گرمیوں میں اہم سیاسی شخصیات کی موجودگی نظر نہیں آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/On8U
عوام بےسروسامان، سیاستدان اقتدار کے ایوانوں میںتصویر: AP

ان اہم سیاسی رہنماوں میں سے کچھ لوگ تو اسلام آباد اور لاہور جیسے محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں اور باقی نمائشی قسم کی امدادی سرگرمیوں میں علامتی طور پر شریک ہیں۔ پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں یہ تاثرعام ہے کہ منتخب نمائندوں نے اپنے ووٹروں کو مصیبت کی گھڑی میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

اس کی ایک مثال سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والا علاقہ جنوبی پنجاب بھی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر شاہ محمود قریشی ، وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار عبدالقیوم جتوئی ، وزیر مملکت برائے اقتصادی امور حنا ربانی کھر سب اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سابق صدر فاروق لغاری، سابق اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام اور سابق وزیر اعلٰی ملک غلام مصطفیٰ کھر کے علاوہ نصراﷲ دریشک، سکندر حیات بوسن، تہمینہ دولتانہ اور رضا حیات ہراج سمیت بہت سے وفاقی اور صوبائی وزرا بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔

NO FLASH Pakistan Hochwasser Flut Hungersnot Kinder
سیاسی لیڈروں کے حق میں نعرے لگانے والے عوام کی فریاد سننے والا کوئی نہیںتصویر: AP

شدید سیلاب کی وجہ سے بد ترین تباہی سے دو چار ہونے والے اس علاقے میں جاری امدادی سر گرمیوں میں اہم سیاسی شخصیات کی موجودگی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان اہم سیاسی رہنماوں میں سے کچھ لوگ تو اسلام آباد اور لاہور جیسے محفوظ مقامات پر چلے گئے ہیں اور باقی نمائشی قسم کی امدادی سرگرمیوں میں علامتی طور پر شریک ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے گھر جمعے کی سی پہر رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ پندرہ بیس دنوں سے اسلام آباد میں ہیں اور کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب اپنے آبائی حلقے میں واپس آ سکیں گے ۔

پنجاب اسمبلی میں فنکشنل لیگ کے پارلیمانی لیڈر مخدوم احمد محمود سے بات کرنا چاہی تو جواب ملا کہ صاحب واقعے ہی آرام کر رہے ہیں ۔ سب سے دلچسپ صورتحال ملک غلام مصطفیٰ کھر کی رہی ان کے ذاتی موبائل نمبر پر جب فون کیا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ اپنا موبائل فون لاہور چھوڑ کر جنوبی پنجاب میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ان کے آبائی علاقے میں مسلسل کوششوں کے باوجود ان کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

Pakistan Diplomatenviertel in Islamabad
اسلام آباد کا ڈپلومیٹک ایریا، سیاستدانوں کا پر آسائش گوشہ عافیتتصویر: Abdul Sabooh

سابق صدر پاکستان فاروق لغاری بھی اپنے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان میں نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے سینئیر مشیر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ بھی آج کل سیلاب سے متاثرہ ڈیرہ غازی خان کی بجائے لاہور میں پائے جا رہے ہیں۔ بیشتر سیاسی رہنما سیلاب سے ستائےہوئے اپنے ووٹروں کی کالیں سننےسے گریز کر رہے ہیں۔ حنا ربانی کھر اور جہانگیر ترین کی طرح جو لوگ تاخیر سے جنوبی پنجاب پہنچے انہیں عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوٹ ادو کے جمشید نامی ایک شہری نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر آتے ہیں اور تصویریں بنا کر چلے جاتے ہیں صحیح طرح سے امدادی کاروائیاں نہیں ہو پا رہی ہیں۔

مظفر گڑھ کے ایک شہری عمر دراز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چند ماہ پہلے مظفر گڑھ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے موقعے پر پیپلز پارٹی کے امید وار جمشید دستی کی حمایت میں وزیر اعظم اور کئی وفاقی وزرا جنوبی پنجاب میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے ووٹروں کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بھی دیں اور کھانا بھی کھلا یا لیکن پتا نہیں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں وفاقی حکومت کہاں چلی گئی ہے۔ اور تو اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سماجی کارکن مختاراں مائی بھی اپنی سماجی تنظیم مختاراں مائی ویلفئیر آرگنائزیشن سمیت پانی میں ڈوبا میر والا چھوڑ کر لاہور جا بسی ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفٰی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید