جنگجو تنظیم کی دھمکی کے بعد کشمیری صحافیوں کا استعفی
17 نومبر 2022ایک عسکریت پسند تنظیم 'دی ریزسسٹنس فرنٹ' (ٹی آر ایف) کی طرف سے ایک درجن سے زائد صحافیوں پر سکیورٹی فورسز کا مخبر ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے نام شائع کر دینے کے بعد' رائزنگ کشمیر' اور دیگر مقامی اخبارات کے لیے کام کرنے والے پانچ صحافیوں نے اپنی ملازمت سے استعفی دے دیا ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ ان دھمکیوں کے پیچھے مبینہ طور پر ٹی آر ایف کا ہاتھ ہے جو عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی ایک شاخ ہے۔ ٹی آر ایف نے صحافیوں کو یہ دھمکی ٹیلی گرام اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعہ دی۔ یہ دھمکی ایک بلیک لسٹ ویب سائٹ 'کشمیر فائٹ ڈاٹ کوم' پر بھی شائع کی گئی ہے۔
ٹی آر ایف نے جو فہرست شائع کی ہے ان میں صحافیوں کو "پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ" بتایا گیا ہے۔ فہرست میں جن 12 صحافیوں کے نام درج ہیں ان میں کئی چیف ایڈیٹر جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور مشہور ہیں۔ انہیں پولیس کی سکیورٹی بھی حاصل ہے۔
کشمیر: ’میڈیا بے زبان‘اور ’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘
تاہم کئی ایسے صحافی بھی ہیں جو نہ تو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور نہ ہی مشہور ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نے تو کشمیر میں عسکریت پسندی یا فوج اور سیاست کے متعلق کبھی کچھ لکھا بھی نہیں ہے۔
اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر ایک کشمیری صحافی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے کہ چیف ایڈیٹرز کے علاوہ دیگر صحافیوں کو بھی نشانہ بنانے کے پیچھے عسکریت پسند تنظیم کا مقصد ان اخبارات کو پوری طرح 'معذور' بنا دینا ہو۔
کشمیر میں میڈیا کے لیے بھارتی حکومت کی نئی پالیسیاں
انہوں نے مزید بتایا کہ کشمیر میں سن 2019 میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد یہاں کے دو معروف اخبارات پوری طرح خفیہ ایجنسیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ انہیں بڑی تعداد میں سرکاری اشتہارات ملتے ہیں اور یہ تقریباً صرف اور صرف سرکار کا موقف ہی شائع کرتے ہیں۔ ان میں حکومت کی نکتہ چینی کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ اور ان کے مالکان اور چیف ایڈیٹرز کو زبردست سکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔
کشمیر پولیس کا بیان
بھارتی میڈیا کے مطابق صحافیوں کو دھمکی دیے جانے کے بعد سری نگر پولیس نے ٹی آر ایف کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کی مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا ہے۔
بھارتی پولیس کے مطابق یہ ویب سائٹ مبینہ طور پر پاکستان سے آپریٹ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کے خلا ف گندی مہم چلائی جاتی ہے۔
کشمیر: برطانوی پولیس سے بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کو گرفتار کرنے کی درخواست
ایک پولیس اہلکار نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ "سوشل میڈیا پر شائع پوسٹ کا مواد واضح طور پر دہشت گردوں اور قوم دشمن عناصر کے مقاصد کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے لوگوں بالخصوص میڈیا اہلکاروں کو سرعام بدعنوان قرار دے کر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ "
بھارتی حکومت نے ’کشمیر ٹائمز‘ کا دفتر سیل کر دیا
استعفی دینے والوں میں شامل ایک صحافی کا کہنا تھاکہ ان پر فوج کا بیانیہ نشر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن "میں صرف عوامی مسائل مثلاً پانی، سیور اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی رپورٹنگ کرتا ہوں، میں آرمی کی رپورٹنگ نہیں کرتا، میں نے تو ان کے کسی تقریب کی بھی آج تک رپورٹنگ نہیں کی۔ اس کے باوجود مجھے آرمی کا مخبر قرار دیا جا رہا ہے۔"
تین صحافیوں نے کسی پریشانی سے بچنے کے لیے اپنے استعفی نامے سوشل میڈیا پر شائع کردیے۔
کشمیری صحافیوں کی آواز سننے والا کوئی نہیں
کشمیری صحافی اب تک پولیس اور سکیورٹی فورسز کے دباو کا سامنا کررہے تھے لیکن اب انہیں دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھی اپنی جان کا خوف ستانے لگا ہے۔ صحافی اس لیے بھی خوف زدہ ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کی دھمکیاں اکثر اوقات حقیقت میں بدل جاتی ہیں۔
بھارت کے کشمیری صحافی کو امریکہ جانے سے روکنے پر واشنگٹن کا رد عمل
دوسری طرف کشمیر میں صحافیوں کے مسائل اور مصائب سننے والا کوئی نہیں ہے۔ وادی میں صحافیوں کی تنظیمیں غائب ہوچکی ہیں۔ پریس کلب آف کشمیر بند کر دیا گیا ہے۔
کشمیر: صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کی گرفتاری کے احکامات
خوف کا عالم یہ ہے کہ جن صحافیوں کو دھمکیاں ملتی ہیں وہ اسے مقدر کا کھیل سمجھتے ہوئے خاموشی سے قبول کرلیتے ہیں۔ ان کے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکتی رہتی ہیں۔ متعدد صحافی جیلوں میں بند ہیں جب کہ اب تک درجنوں صحافی اپنی ذمہ داریو ں کی ادائیگی کے دوران مارے جاچکے ہیں۔ ان میں رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری بھی شامل ہیں، جنہیں دہشت گردوں نے سن 2018میں ہلاک کر دیا تھا۔