جنگی مشن کی تکمیل پرجوبائیڈن عراق میں
31 اگست 2010ہزاروں کی تعداد میں امریکی جنگی دستے مسلح کارروائیوں کے لئے سات سال تک عراق میں مقیم رہے، جس دوران ان میں سے چار ہزار چار سو سے زائد مارے بھی گئے۔
عراق میں امریکی جنگی مشن کی باقاعدہ تکمیل سے ایک روز قبل جو بائیڈن کل پیر کے روز بغداد پہنچے تھے۔ جو بائیڈن کی عراق میں موجودگی کے دوران ہی آنے والی شب امریکی صدر باراک اوباما اپنی ایک تقریر میں باقاعدہ یہ اعلان کرنے والے ہیں کہ عراق میں امریکہ کا جنگی مشن بالآخر اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔
اپنے اِس خطاب میں وہ عراق میں امریکی فوجی مشن کی نوعیت میں تبدیلی سے متعلق بھی اظہارِ خیال کریں گے۔
جو بائیڈن ایک ایسے وقت پر عراق میں ہیں، جب وہاں گزشتہ عام انتخابات کے تقریباً چھ ماہ بعد بھی نئی ملکی حکومت قائم نہیں ہو سکی۔ یہ بات امریکہ کے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ عراق سے امریکی جنگی دستوں کے انخلاء کی پہلے سے طے کردہ تاریخ اگرچہ اکتیس اگست تھی مگر امریکہ نے وہاں سے اپنے جنگی یونٹوں کی واپسی کا عمل کافی پہلے ہی شروع کر دیا تھا، جو چند روز قبل مکمل بھی ہو گیا تھا۔
لیکن انخلاء کے اسی عمل کے دوران عراق میں کار بم حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ ان حملوں میں ان عراقی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، جو گزشتہ برس سے لے کر اب تک اپنے ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں بتدریج اپنے سر لے چکے ہیں۔
تشدد کی اِس تازہ لہر کے دوران سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں تاہم ان ہلاکتوں کے باوجود واشنگٹن نے عراق سے اپنے لڑاکا دستوں کی واپسی جاری رکھی اور اب وہاں امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد پچا س ہزار سے بھی کم بنتی ہے، جن کی ذمہ داریاں زیادہ تر عراقی فوج اور پولیس کے اہلکاروں کو تربیت دینے تک محدود رہیں گی۔
اس سلسلے میں بغداد پہنچنے پر صحافیوں نے امریکی نائب صدر سے یہ پوچھا کہ واشنگٹن کے جنگی دستوں کی واپسی اور عراق میں سلامتی کی تازہ صورت حال کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں؟ اس پر اپنے مختصر جواب میں جو بائیڈن نے کہا کہ ’’ہم بھی ٹھیک ٹھاک رہیں گے۔ وہ بھی ٹھیک ٹھاک رہیں گے۔‘‘
جو بائیڈن اپنے موجودہ دورے کے دوران عراق میں صدر جلال طالبانی، وزیر اعظم نوری المالکی اور سابق وزیر اعظم ایاد علاوی سے بھی ملیں گے۔ کئی مہینے قبل ہونے والے عراقی الیکشن میں بہت معمولی اکثریت سے کامیابی ایاد علاوی کے سیاسی اتحاد ہی کو ملی تھی۔
سالانہ بنیادوں پر عراق میں اب خونریز کارروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں، جتنی دوہزار چھ اور دو ہزار سات کے دوران دیکھی گئی تھی۔ تاہم یہ بات پریشانی کا باعث ہے کہ عراق سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور وہاں سلامتی کی صورت حال ابھی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ اعدادوشمار ہیں کہ اس سال کے دوران عراق میں ہر مہینے اوسطاً قریب تین سو افراد مارے گئے۔
باراک اوباما نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد گزشتہ سال کے شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ امریکی جنگی دستے اکتیس اگست دو ہزار دس تک عراق سے نکل جائیں گے۔
اب اوباما انتظامیہ نے ایسا کر دکھایا ہے۔ ویک اینڈ پر اپنے ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ اکتیس اگست کے روز سات سال سے بھی زیادہ طویل عرصے بعد عراق میں امریکہ کا جنگی مشن مکمل ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عراق اب ایک خود مختار ملک ہے، جو اپنے راستے کا تعین خود کر سکتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی