1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ تباہی لائے گی، عراقی کردستان کی بغداد کو مکالمت کی پیشکش

مقبول ملک روئٹرز
25 اکتوبر 2017

نیم خود مختار عراقی کرد علاقے کی حکومت نے اس خطے کی آزادی کے ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دینے اور بغداد میں ملکی حکومت کو مکالمت کی پیشکش کر دی ہے۔ اس تنازعے میں اطراف کے دستوں کے مابین مسلح جھڑپیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2mS0X
عراقی کرد فورسز اور بغداد حکومت کے مسلح دستوں کے مابین لڑائی گزشتہ ہفتے شروع ہوئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed

عراقی دارالحکومت بغداد اور مصری دارالحکومت قاہرہ سے بدھ پچیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عراقی کردستان کی علاقائی حکومت نے، جو KRG کہلاتی ہے، کہا ہے کہ وہ بغداد حکومت کے مسلح دستوں کے ساتھ فوجی تصادم کے خاتمے کی کوششوں کے تحت نہ صرف اس خطے کی آزادی سے متعلق ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دینے پر تیار ہے بلکہ وہ اس بحران کے حل کے لیے بغداد میں مرکزی حکومت کے ساتھ مکالمت پر بھی آمادہ ہے۔

Irak Konflikt im Norden
عراقی دستوں پر گولہ باری کی تیاریاں، کردوں کی پیش مرگہ فورس کے ارکانتصویر: picture-alliance/abaca/I. Okuducu

کرکوک میں عراقی اور کرد افواج کے درمیان جنگ کا خطرہ

ترکی اور ایران کردستان کے ساتھ سرحدیں بند کریں، عراقی مطالبہ

(عراقی) کردستان کی علاقائی حکومت نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اطراف کے مابین عسکری تصادم کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ کسی ایک فریق کو فتح حاصل ہو جائے۔ اس فوجی ٹکراؤ سے پورا ملک مکمل تباہی کی طرف چلا جائے گا۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس بحران کے حل کے لیے ہم عراقی حکومت اور بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ لڑائی فوراﹰ بند کر دی جائے، ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دیا جائے اور عراقی آئین میں مہیا کردہ بنیادوں پر بغداد میں ملک کی مرکزی حکومت  کے ساتھ مکالمت کا آغاز کیا جائے۔‘‘

Masoud Barzani
عراقی کردستان کی نیم خود مختار علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانیتصویر: picture-alliance/abaca/F.Ferec

عراقی کردستان میں اس خطے کی آزادی کے لیے ٹھیک ایک ماہ قبل پچیس ستمبر کو جو متنازعہ ریفرنڈم کرایا گیا تھا، اسے بغداد میں مرکزی حکومت نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس ریفرنڈم میں 90 فیصد کرد رائے دہندگان نے اس علاقے کی باقی ماندہ عراق سے علیحدگی اور آزادی کی حمایت کر دی تھی۔

عراق سے آزادی کے لیے تاریخی ریفرنڈم

کرد ریفرنڈم منسوخ کر دیں، ترک صدر

اس وجہ سے بغداد اور عراقی کردستان کے مابین کشیدگی کے پس منظر میں گزشتہ ہفتے فریقین کے فوجی دستوں کے مابین جھڑپیں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ اس دوران عراقی حکومت نے ملک کے شمال میں طاقت کا توازن اس طرح اپنے حق میں کر لیا تھا کہ عراقی دستوں نے کردوں کے زیر انتظام کئی علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

Irak Konflikt im Norden
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے گزشتہ ہفتے ملکی فوج کو کردوں کے زیر قبضہ تمام متنازعہ علاقوں پر کنٹرول کا حکم دے دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
Karte Infografik Kurden Irak Oktober 2017 ENG

عراقی کردستان کا علاقہ ملک کے شمال میں تین صوبوں پر مشتمل ہے، جس کا کنٹرول نیم خود مختار علاقائی حکومت کے پاس ہے۔ گزشتہ ہفتے شروع کی گئی ملکی فوج کی کارروائیوں کے دوران بغداد کے مسلح دستے اب تک شمالی عراق میں کئی علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔

کُرد: چار ملکوں میں موجود بے ریاست لوگ

عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرمجوشی، وجہ کیا ہے؟

ان علاقوں میں نہ صرف کرکوک کا شہر شامل ہے بلکہ تیل کی پیداوار کی وجہ سے بہت اہم کئی ایسے قریبی علاقے بھی، جنہیں پہلے عراقی کردوں نے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے چھین کر اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، لیکن جو اب بغداد حکومت کے دستوں کے قبضے میں ہیں۔

عراقی فوج نے اپنی یہ عسکری مہم اس وقت شروع کی تھی، جب ملکی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اسے یہ حکم دے دیا تھا کہ وہ تمام متنازعہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لے۔ اس دوران العبادی نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ عراق کی ترکی کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہیں بھی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہونی چاہییں۔ یہ تمام ترک عراقی سرحدی گزرگاہیں جغرافیائی طور پر عراقی کردستان کے نیم خود مختار علاقے ہی میں واقع ہیں۔