1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ کے خوف سے لرزاں ایک بچی سوال پوچھتی ہے!

8 جنوری 2020

دنیا میں جاری جنگوں اور مسلح تنازعات کے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ابلاغ عامہ کے ذریعے جو نقوش ان معصوم ذہنوں میں پختہ ہو رہے ہیں، ان کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Vu1b
Mustafa Kishwar Kommentarbild App

اسمارٹ فون، آئی فون، ملٹی میڈیا پلیٹ فارم آج کی روز مرہ زندگی کی ایسی ضرورتیں بن چکے ہیں، جن کے بغیر زندگی کا تصور محال لگتا ہے۔ ریاستی اور معاشرتی سطح پر تو ان کے اثرات ناقابل تصور حد تک گہرے ہیں ہی تاہم معصوم اذہان کو یہ جدید طرز زندگی کس طرح متاثر کر رہا ہے؟ اس پر غور کرنے کا والدین کے پاس وقت نہیں ہے۔

میں بھی اسی دائرے کے گرد گھومتی ہوئی زندگی بسر کر رہی ہوں تاہم میری زندگی کا مرکز میری اکلوتی بیٹی ہے، جو اب آٹھ برس کی ہے۔ ذہین تو اس دور میں تقریباً سب ہی بچے ہوتے ہیں مگر میری بچی اکثر و بیشتر اپنی گفتگو اور انتہائی سنجیدہ سوالات کر کے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس کم عمر کے آگے میرے دلائل اور میری حکمت کمزور اور اکثر بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ جب میں خود سے یہ سوال کروں تو جواب ملتا ہے ''مصلحت‘‘۔ بچے ان چیزوں سے عاری ہوتے ہیں، سچ بولتے اور سچ جاننا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو اُس کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ان کے اذہان الجھتے ہیں اور وہ بار بار اس کا جواب چاہتے ہیں۔ یہ کیفیت اُن کی شخصیت کو منفی طریقے سے متاثر کر سکتی ہے۔ 

ایک ایسے ہی کٹھن مرحلے سے ان دنوں میں گزر رہی ہوں۔ گزشتہ ہفتے کے روز میری بیٹی ٹی وی پر 'فیری ٹیلز‘ سیریز کی کوئی فلم دیکھ رہی تھی کہ میں نے اُسے فلم روکنے کو کہا کیونکہ میں ورلڈ نیوز دیکھنا چاہتی تھی۔ میری بیٹی نے اس شرط پر کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر کچھ دیر ٹی وی دیکھ سکتی ہے، اپنی فلم روک دی اور میں نے نیوز دیکھنا شروع کر دیں۔ جو پہلا جملہ ہم نے سُنا وہ یہ تھا کہ ،'' امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جنرل سلیمانی پر ڈرون حملے کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ اور اُن کے چند ساتھی ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی وہ ویڈیو کلپ چلنے لگا، جس میں صدر ٹرمپ عراق میں امریکی حملے کے بعد فلوریڈا سے اپنے پریس ریمارکس میں کہہ رہے تھے،'' امریکی صدر کی حیثیت سے میرا پہلا فریضہ اپنی قوم اور شہریوں کا تحفظ ہے۔ گزشتہ شب میرے احکامات پر امریکی فوج نے مہارت کے ساتھ ڈرون حملے میں دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا ہے۔‘‘

جرمنی میں رہتے ہوئے میری بیٹی انگریزی نہ صرف بولتی بلکہ بہت اچھی طرح سمجھتی بھی ہے۔ اُس نے جیسے ہی ٹیلی وژن کی اسکرین پر امریکی صدر کو یہ کہتے سنُا، مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ امریکا سے اسے بہت گہرا لگاؤ ہے کیونکہ جب یہ پانچ ماہ کی تھی تب سے پابندی سے ہر سال اگر دو نہیں تو کم از کم ایک بار ہم سب امریکا اپنے گھر والوں کے پاس جاتے ہیں۔ وہاں میری سارے بہن بھائی آباد ہیں اور اُن کے بچے وہیں کے تعلیم یافتہ ہیں اور سب پوری طرح امریکی معاشرے میں ضم ہیں۔ میری بیٹی اپنے تمام کزنز سے بہت قریب ہے اور اُن سے بہت کچھ سیکھ بھی رہی ہے۔

صدر ٹرمپ کے بیان میں شامل کچھ الفاظ ایسے تھے جو اُس کے لیے نئے تھے لیکن اُسے نشر ہونے والی خبروں سے پورا اندازہ ہو گیا کہ حالات بہت کشیدہ ہیں اور جنگ تک ہو سکتی ہے۔

ننھے سے ذہن کے بڑے بڑے سوالات

ماما ٹرمپ اُس امریکا کے صدر ہیں جہاں میرے کزنز رہتے ہیں؟ کیا وہاں جنگ شروع ہوجائے گی؟ ماما جنگ میں کیا ہوتا ہے؟ ماما دہشت گردی اور ڈرون حملہ کیا ہوتا ہے؟ ماما ایک انسان دوسرے کو کیسے مار سکتا ہے؟ ماما کیا کوئی بھی صدر بن سکتا ہے، کیا میں بھی؟

آخری سوال کر کے فوراً بعد اُس نے خود ہی جواب دیا،''ماما میں صدر نہیں چانسلر بننا چاہتی ہوں۔ انگیلا میرکل کی طرح۔ لیکن پھر میں آپ کی طرح کام کیسے کروں گی؟ نہیں ماما میں جرنلسٹ بنوں گی میں آفس میں بیٹھ کر لکھوں گی جیسا آپ کرتی ہیں، جب میں آپ کے پاس آفس آتی ہوں تو آپ لکھ رہی ہوتی ہیں، مجھے ایسا بننا ہے۔ لیکن ماما، اوما ) جو میری بیٹی کی مُنہ بولی نانی۔ ایک معمر جرمن خاتون ہیں(  کہتی ہے جنگ میں سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ اُن کے ماما پاپا مر جاتے ہیں۔ ماما جنگ کیوں ہوتی ہے؟ ماما مجھے خوف آ رہا ہے۔ اتنا کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آئے اور اُس نے اپنے سب سے چہیتے کھلونے ایک ''آئن ہورن‘‘ کو دبوچا اور میری گود میں آکر چھپنے لگی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اور مجھ سے سوالات کیے جاتی تھی۔ ماما میرے کزنز تو امریکا میں بیماروں کا علاج کرتے ہیں، اچھے کام کرتے ہیں، دوسروں کی مدد کرتے ہیں، کیا وہ ٹرمپ کو جنگ سے روک نہیں سکتے؟ جنگ ہو گی تو ہم سب ختم ہو جائیں گے، میرے سارے کھلونے، میری مچھلیاں جو اکویریم میں ہیں۔

سوالوں کی بوچھاڑ نے مجھے جیسے گونگا کر دیا ہو۔ میں نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا کہ اُس نے مزید پوچھنا شروع کیا۔ ماما کیا جنگ کے بعد سب تباہ ہو جاتا ہے تو کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کرتا؟ جن بچوں کے ماما پاپا ہلاک ہوجاتے ہیں انہیں کھانا اور کھلونے کون دیتا ہے؟

اس مقام پر میرے ذہن کو ایک جھٹکا لگا۔ میں نے اُسے کہا کہ اب بس کرو۔ اتنی باتیں کیوں رکھتی ہو ذہن میں؟ جن بچوں کا سب کچھ جنگ کی نظر ہو جاتا ہے وہ بھی پل ہی جاتے ہیں، کہیں نا کہیں سے انہیں بھی جینے کے لیے سامان میسر ہو ہی جاتا ہے۔

''جنگ کی تباہی کے بعد ''مارشل پلان‘‘ آتا ہے۔