1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہاربرطانیہ

اسانج کو فوراﹰ ملک بدر نہیں کیا جا سکتا، برطانوی عدالت

26 مارچ 2024

برطانیہ کی ایک اعلیٰ عدالت کے حکم کے مطابق وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو اپنے خلاف جاسوسی کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ سے ملک بدر کر کے فوراً امریکہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4e91c
جولیان اسانج کی اہلیہ سٹیلا اسانج لندن ہائی کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے
جولیان اسانج کیس کی سماعت کے موقع پر لندن ہائی کورٹ کے باہر احتجاجی مظاہرے کے دوران استعمال ہونے والے پلے کارڈز میں سے ایکتصویر: Toby Melville/REUTERS

اس عدالتی حکم کو جولیان اسانج کی جزوی قانونی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل چھبیس مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہائی کورٹ کے دو ججوں نے آج کہا کہ اگر امریکی حکام نے اس بارے میں مزید یقین دہانیاں نہ کرائیں کہ امریکہ حوالگی کے بعد جولیان اسانج کے ساتھ کیا ہو گا، تو وہ اسانج کی ان کی ممکنہ ملک بدری کے خلاف ایک نئی قانونی اپیل سماعت کے لیے منظور کر لیں گے۔

ایک دہائی بعد بھی قانونی جنگ ابھی جاری

قانونی ماہرین کے مطابق لندن ہائی کورٹ کے ججوں کا یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وکی لیکس کے بانی کی برطانیہ سے ممکنہ ملک بدری اور امریکہ حوالگی کے لیے وہ عدالتی جنگ مزید طویل ہو جائے گی، جسے پہلے ہی ایک عشرے سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔

لندن ہائی کورٹ کے ججوں نے آج 26 مارچ کو اپنا حکم سناتے ہوئے اس کیس کی اگلی سماعت 20 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کا معاملہ، آگے کیا ہو سکتا ہے؟

لندن ہائی کورٹ کی عمارت کے باہر تعینات برطانوی پولیس اہلکار
اسانج کی ممکنہ ملک بدری کے حوالے سے اپنا تازہ ترین حکم چھبیس مارچ کو لندن میں ہائی کورٹ کے دو ججوں نے سنایاتصویر: Toby Melville/REUTERS

جولین اسانج کی رہائی کے لیے آسٹریلوی پارلیمان میں قرارداد منظور

ہائی کورٹ کے ججوں وکٹوریہ شارپ اور جیریمی جانسن نے حکم دیا کہ امریکی حکام کو اس عدالت میں اس بارے میں مزید دستاویزی یقین دہانیاں پیش کرنا چاہییں کہ اسانج کے ساتھ امریکہ میں کیسا برتاؤ کیا جائے گا۔ دوسری صورت میں اسانج کی ان کی ممکنہ ملک بدری کیے خلاف ایک نئی اپیل ان بنیادوں پر سماعت کے لیے منظور کر لی جائے گی کہ امریکہ میں ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی کی جائے گی اور ممکنہ طور پر انہیں سزائے موت بھی سنا دی جائے گی۔

اسانج کے وکیل کا موقف

اس کیس کی سماعت کے دوران جولیان اسانج کے وکیل ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے فروری میں دو روز تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران لندن ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ امریکی اہلکار وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو اس لیے سزا دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ''امریکی حکومت کے ایما پر کی جانے والی ان مجرمانہ سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا تھا، جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔‘‘

ان امریکی حکومتی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر تشدد، ایذا رسانی  اور قتل کے واقعات بھی شامل تھے۔

لندن حکومت نے جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کی منظوری دے دی

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی اکتوبر دو ہزار دس میں لندن میں لی گئی ایک تصویر
وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی اکتوبر دو ہزار دس میں لندن میں لی گئی ایک تصویرتصویر: Carmen Valino/El Pais/Newscom/IMAGO

 ایکواڈور نے جولیان اسانج کی شہریت منسوخ کر دی

جہاں تک جولیان اسانج کے حامیوں کا تعلق ہے تو ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک صحافی ہیں اور انہیں امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ جولیان اسانج نے جو لاکھوں دستاویزات افشا کی تھیں، وہ امریکی فوج کی ان ''بداعمالیوں‘‘ کے بارے میں تھیں، جن کی وہ عراق اور افغانستان میں مرتکب ہوئی تھی اور جن کا منظر عام پر آنا عوامی مفاد میں تھا۔

امریکی حکومت کی دلیل

جولیان اسانج کی برطانیہ سے ممکنہ ملک بدری کے خلاف ان کے وکلاء کا یہ موقف بھی ہے کہ وکی لیکس کے بانی کے خلاف امریکی استغاثہ کے محرکات سیاسی نوعیت کے ہیں اور امریکہ میں ان کے خلاف ممکنہ طور پر آئندہ کی جانے والی کوئی بھی قانونی کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نہیں ہو گی۔

جوليان اسانج آزادی اظہار رائے کے چيمپئن يا ايک عام مجرم؟

اس کے برعکس امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اسانج نے جو کچھ کیا، وہ ایک صحافی کی پیشہ وارانہ مصروفیات سے بہت دور کی بات تھی۔ مزید یہ کہ امریکی استغاثہ کے بقول اسانج نے امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے حصول کی کوشش کر کے، انہیں چرا کر اور پھر بلاامتیاز منظر عام پر لا کر بہت سی بےقصور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

م م / ع ا (اے پی، روئٹرز)

لبرل ڈیموکریسی کیا ہے؟