جوہری مذاکرات کو مزید مہلت نہیں دینی چاہیے، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
24 نومبر 2014ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار باربرا ویسل کہتی ہیں کہ رجائیت پسندوں کا خیال ہے کہ اس مرتبہ جوہری مذاکرات کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ کیونکہ ایران کے جوہری پروگرام کی کامیابی کے حوالے سے حالات اس سے پہلے کبھی بھی اتنے سازگار نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے تہران حکومت پر ملک کی مسلسل بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے شدید دباؤ ہے۔ متعدد برسوں سے عائد ان پابندیوں نے عالمی سطح پر تہران کو تنہا کر دیا، جس سے مالیاتی شعبہ اور صنعتی ترقی کے بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ ہی تیل اور گیس کی برآمد اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی۔ بڑھتی ہوئی افراط زر اور مشکل حالات زندگی سے نبرد آزما ایرانی عوام کا اب صرف ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ ہے ان پابندیوں کا خاتمہ۔
باربرا ویسل مزید کہتی ہیں کہ اس صورتحال میں ایک اعتدال پسند صدر نے انہیں اس مسئلے سے باہر نکالنے کی امید دلائی ہے۔ صدر حسن روحانی ایران اور مغرب کے مابین حائل خلیج اور رسہ کشی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ صدر روحانی کو بھی بخوبی اندازہ ہے کہ ایرانی تنازعہ کا حل ان کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے کتنا اہم ہے۔
ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار کے خیال میں دوسری جانب مغربی ممالک کے مفادات ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما کوخارجہ پالیسی کے میدان میں ایک کامیابی کی ضرورت ہے۔ اوباما کو خطے میں آئی ایس کے خلاف ایک قابل بھروسہ ساتھی کی بھی ضرورت ہے۔ اس صورتحال میں یورپی یونین فوری طور پر ایک ایسی سند چاہتی ہے، جس سے وہ ثابت کر سکے کہ اس کی خارجہ پالیسی مسلسل سفارت کاری اور مستقل پابندیوں کا مرکب ہے اور اس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
باربرا ویسل کے بقول فریقین بار بار کہہ رہے ہیں کہ کچھ معاملات پر ابھی اختلاف رائے باقی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر کئی مذاکراتی دور ہو چکے ہیں۔ اس دوران فریقین متعدد مرتبہ اپنے مؤقف کو دہرا بھی چکے ہیں اور واضح بھی کر چکے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ مغربی ممالک ایرانی صدر روحانی کو کمزور اور غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اگر وہ اپنے ملک میں اپنی بات نہیں منوا سکتے تو مغربی ممالک کو بطور دوست ان میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہو گی۔