"جو ہندو، مسلمانوں کو بھارتی نہ سمجھے وہ ہندو نہیں"
5 جولائی 2021ایسے وقت میں جب بھارت میں گائے کے نام پر ہونے والی لنچنگ کے واقعات پر دنیا بھر میں نکتہ چینی ہورہی ہے اور سیاسی لحاظ سے ملک کی سب سے اہم ریاست اترپردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، ہندو قوم پرست اور شدت پسند جماعتوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان نے سیاسی اور سماجی ماحول گرم کردیا ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے مسلمانوں میں ہندوتوا کے نفوذ کے لیے سرگرم اپنی ذیلی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”ہندومسلمان اتحاد ایک گمراہ کن اصطلاح ہے۔ کیونکہ یہ دونوں الگ الگ نہیں بلکہ جسدِ واحد ہیں۔ ہم ایک ہی آبا واجداد کے جانشین ہیں۔ صرف پوجا کرنے کے طریقے کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ بھارت کے تمام لوگوں کا ڈی این اے ایک ہے۔"
لنچنگ کرنے والے 'دہشت گرد‘ ہیں!
موہن بھاگوت نے لنچنگ کے معاملے پر پہلی مرتبہ نسبتاً زیادہ واضح اور سخت لہجے میں بیان دیا۔
آر ایس ایس کے سربراہ کا کہنا تھا، ”جو لوگ گائے کے نام پر لنچنگ (مارپیٹ) کررہے ہیں انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ہندوتوا کے خلاف ہے۔ ایسا کرنے والے 'آتاتائی‘ (دہشت گرد) ہیں۔ قانون کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔"
بھاگوت کا کہنا تھا، ”ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، یہاں ہندو یا مسلمان کا غلبہ نہیں ہوسکتا، صرف بھارتیوں کا غلبہ ہوسکتا ہے۔"
سیاسی جماعتوں نے بھاگوت کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ مودی حکومت اپنی بدنامی اور اترپردیش کے آئندہ اسمبلی انتخات کے مدنظر آر ایس ایس کے سربراہ سے اس طرح کے بیانات دلوا رہی ہے۔
اویسی کا ردعمل
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھاگوت کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کی لنچنگ دراصل مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے نظریات پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔
اویسی نے سلسلہ وار ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ”آر ایس ایس کے بھاگوت نے کہا، ”لنچنگ کرنے والے ہندوتوا مخالف۔" ان مجرموں کو گائے اور بھینس میں فرق نہیں پتہ ہوگا لیکن قتل کرنے کے لیے جنید، اخلاق، پہلو، رکبر، علیم الدین کے نام ہی کافی تھے۔ یہ نفرت ہندوتوا کی دین ہے۔ ان مجرموں کو ہندوتوادی سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے۔"
کانگریس کی تنقید
کانگریس کے سینئر رہنما دگ وجئے سنگھ نے آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر سوال کیا، ”موہن بھاگوت جی یہ سبق کیا آپ اپنے شاگردوں، کارکنوں، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے رہنماوں اور کارکنوں کو بھی دیں گے؟ کیا آپ یہ تعلیم مودی، شاہ اور بی جے پی کے وزراء اعلی کو بھی دیں گے؟"
دگ وجے سنگھ نے مزید پوچھا،”اگر آپ اپنے ان خیالات کے لیے ایماندار ہیں تو بی جے پی میں اُن تمام لیڈروں کو جنہوں نے بے قصور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے، انہیں ان کے عہدوں سے فوراً ہٹانے کا حکم دیں۔ ابتدانریندر مودی اور یوگی ادیتیہ ناتھ سے کریں۔"
ایک طرف اپیل دوسری طرف اشتعال انگیز بیانات
ایک طرف آر ایس ایس کے سربراہ تمام بھارتیوں کا ڈی این اے ایک ہونے کی بات کر رہے تھے لیکن اسی وقت چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہریانہ بی جے پی کے ترجمان ایک مہا پنچایت میں مسلمانوں کو کرایے پر مکان اور دکان دینے کے لیے ہندوؤں کی سرزنش کررہے تھے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق بی جے پی کے ترجمان سورج پال امّو نے پٹوڈی قصبے میں ہندو برادری سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو بھی گھسیٹ لیا۔ ”اگر بھارت ہماری ماتا ہے تو پاکستان کے ہم باپ ہیں۔ اور یہ پاکستانیوں کو ہم یہاں گھروں میں کرایے پر مکان نہیں دیں گے۔ ان کو اس دیش سے نکالو۔"
موہن بھاگوت نے ایسا بیان کیوں دیا؟
بھارتی مسلمانوں کو ہندوؤں کے وسیع تر کنبے کا حصہ یا لنچنگ کے خلاف بھاگوت کا یہ بیان کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ اس طرح کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ البتہ اس مرتبہ بھاگوت نے یہ بیان ذرا زیادہ واضح اور سخت لہجے میں دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لنچنگ کے واقعات کے سبب بھارت پر بالخصوص مغربی ملکوں اور عرب ممالک میں خاصی نکتہ چینی شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حکمراں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کا امیج خراب ہورہا ہے۔
ان سب کے علاوہ اگلے سال اترپردیش میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور مغربی بنگال میں شکست کے بعد بی جے پی وہاں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔
کیا یہ بیانات محض دکھاوا ہیں؟
بھاگوت نے گائے کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کی نکتہ چینی کی تھی او رحکومت سے ایسے عناصر پر لگام لگانے کی اپیل کی تھی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی لنچنگ کے واقعات پر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ تاہم ان سب کے باوجود لنچنگ کاسلسلہ بدستور جاری ہے۔ حتیٰ کہ بعض معاملات میں تو پولیس نے متاثرہ افراد کو ہی قصور وار قرار دے دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گائے کے نام پر تشدد برپا کرنے والوں پر ان بیانات کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ بی جے پی کے بڑے رہنما بھی ایسے شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
جھارکھنڈ میں جب لنچنگ کے ایک ملزم کو ضمانت پر رہائی ملی تو بی جے پی کے رکن پارلیمان جینت سنہا نے اس کا گلپوشی کرکے خیر مقدم کیا تھا۔