جی ایٹ کا سربراہ اجلاس ، اوباما اور ماحولیات
10 جولائی 2009امریکی صدر باراک اوباما نے اٹلی میں جاری سات اہم ترین صنعتی ممالک اور روس پر مشتمل گروپ جی 8 کے سربراہ اجلاس میں عالمی لیڈروں پر زور دیا کہ وہ زمینی درجہ حرارت میں کمی کے خلاف جنگ کو ممکنہ طور پر تیز کریں۔
اُدھر امریکی سینیٹ میں سبز مکانی یا گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے بارے میں زیرِ بحث بل سے متعلق قانون سازی کا عمل جمعرات کو ایک ماہ کے لئے مؤخر کر دیا گیا۔ جس کے سبب کانگریس کے لئے سال رواں میں اوباما کی خواہش کے مطابق گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی کے بارے میں قانون کا نفاذ ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
تاہم لاکیلا میں جاری جی 8 سمٹ کے دوسرے روز باراک اوباما نے اس امر کا اقرار کیا کہ اُن کا ملک تبدیلئ ماحولیات کا ذِمہ دار ہے۔ انہیں نے کہا کہ ماضی میں امریکہ اِس ضِمن میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ اوباما کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کو فضاء کو آلودہ کرنے کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیس کے اِخراج میں کمی کی تاریخی ذمہ داری پورا کرنا ہوگی تاہم اِس جِدو جہد میں صنعتی ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک کو اشتراک عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
اوباما کا مزید کہنا تھا کہ رواں ہفتے جی 8 گروپ کے اراکین نے فضاء میں کاربن کے اخراج میں کمی سے متعلق واضح اہداف پر تاریخی اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ سب نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ سن 2050 ء تک ترقی یافتہ اقوام اپنے اپنے ممالک میں مضر گیس کے اخراج میں 80 فیصد کی کمی کو ممکن بنائیں گے نیز وہ مل کر کوشش کریں گے کہ عالمی سطح پر مُضر گیسوں کے اخراج میں نصف کمی لائی جائے۔ ان بلند حوصلہ فیصلوں کے نتیجے میں زمینی درجہ حرارت میں زیادہ سے زیادہ دو ڈگری سینٹی گریڈ تک کے ہی اضافے کا ہدف طے ہو سکا ہے۔
اطالوی شہر لاکیلا میں جاری جی 8 سربراہی اجلاس کے دوسرے دن یعنی جمعرات کی ایک خاص اور دلچسپ بات امریکی صدر اوباما اور لیبیا کے لیڈر معمر القدافی کی ملاقات تھی۔ دونوں راہنماؤں نے نہ صرف نہایت دوستانہ انداز میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا بلکہ لاکیلا کے سمٹ ہال میں امریکی صدر لیبیا کے سربراہ سے محض ایک نشست کے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ میٹنگ کے بعد عشائیہ میں بھی قدافی اور اوباما ایک دوسرے کے نزدیک بیٹھے تھے تاہم ان دونوں کے درمیانی تشست پر میزبان ملک اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی بیٹھے تھے۔
لیبیا اور امریکہ کہ تعلقات سال ہا سال سے سرد مہری بلکہ خاصی حد تک عدم اعتماد کا شکار رہے ہیں۔ واشنگٹن کی جانب سے لیبیا پر ایسے گروپس کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جنہیں واشنگٹن دھشت گرد گردانتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی کشیدگی میں کچھ عرصے سے کمی رونما ہوئی ہے۔ معمر قدافی کا ایک ماہ کے اندر اپنے سابقہ نو آبادیاتی حاکم ملک اٹلی کا یہ دوسرا دورہ ہے۔
لاکیولا کے جی 8 اجلاس کے دوسرے روز ترقی کی دہلیز پر کھڑے پانچ ملکوں میکسیکو، بھارت، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل پر مشتمل گرپ جی 5 کی شرکت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے عالمی اقتصادی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کا ذمہ دار صنعتی اور ترقی یافتہ ملکوں کو ٹھرایا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ من موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ مالیاتی بحران نے بھارتی برآمدات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایای ہے۔ تحفظ ماحولیات کی بین الاقوامی پالیسی کے بارے میں من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کے ذمہ دار رُکن کی حیثیت سے بھارت ماحولیات کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا مکمل طور پر اندازہ ہے۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلی سے تبٹنے کے عمل میں ترقی پذیر ممالک میں پائی جانی والی غربت کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔
اُدھر سات اہم ترین صنعتی ممالک اور روس پر مشتمل جی 8 گروپ نے ایران کو اسکے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ستمبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ تب تک اسلامی جموریہ ایران کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ مذاکرات کے لئے راضی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں لاکیلا اجلاس کے دوسرے دن جمعرات کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک بیان میں کہاکہ جی ایٹ کے تمام لیڈروں ن۔ مشترکہ طور پر ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرے اور خاص طور سے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے براہ راست بات چیت پر رضامندی کے اظہار کا مُثبت جواب دے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی امریکی صدر اوباما کی ہمنوائی کرتے ہوئے جی 8 اجلاس میں تحفظ ماحولیات سے متعلق اہداف پر ہونے والے اتفاق کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا۔