حماس کے بارے میں آپ کو کیا کچھ جاننا چاہیے؟
9 اکتوبر 2023حماس ایک فلسطینی عسکریت پسند گروپ ہے، جس کے سیاسی اور مسلح ونگ ہیں۔ وہ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور اپنے بیانیے کے تحت وہ اس ملک کو تباہ کر دینا چاہتا ہے۔ جرمنی، یورپی یونین، امریکہ اور بعض عرب ریاستیں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہیں۔
حماس کی بنیاد 1980 کی دہائی کے آخر میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے سابق صدر یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مخالفت میں رکھی گئی تھی۔ حماس مختلف عسکری دھڑوں پر مشتمل ہے، جن میں قصام بریگیڈ بھی شامل ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل کے خلاف کئی حملے اور خودکش دھماکے کیے ہیں۔ اس تنظیم میں ایک سیاسی جماعت اور امدادی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
دوسری ہلاکت خیز انتفادہ
اسرائیل اور پی ایل او نے ایک دوسرے کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے 1993 میں اوسلو امن عمل کا آغاز کیا۔ تاہم حماس نے اس تاریخی معاہدے کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیلی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سن 2000 سے 2005 کے درمیان حماس، اسلامی جہاد، اور الفتح تحریک کی الاقصیٰ بریگیڈ پر مشتمل فلسطینی عسکریت پسند گروہوں نے اسرائیلی شہریوں کے خلاف متعدد حملے کیے تھے۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج رام اللہ سمیت ان فلسطینی شہروں میں داخل ہو گئی، جن پر اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینیوں کی خود مختاری تسلیم کی جا چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2000 سے جولائی 2007 کے درمیان ہونے والی لڑائی میں 4,228 فلسطینی، 1,024 اسرائیلی اور 63 غیر ملکی شہری مارے گئے۔
2007: حماس کی غزہ میں حکومت کا آغاز
حماس 2006 کے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں فاتح بن کر ابھری۔ 2007 میں حماس نے پی ایل او کی تشکیل میں شامل قوم پرست اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی فتح تحریک کے خلاف شدید لڑائی کے بعد غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے بعد سے فلسطین ایک اندرونی سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ حماس کا غزہ کی پٹی پر کنٹرول ہے، جب کہ فتح پارٹی کے غلبے والی فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے کے جزوی طور پر خود مختار علاقوں پر حکمران ہے۔
اسرائیل نے بعد ازاں غزہ کو ایک ''دشمن علاقہ'' قرار دے دیا اور اس کے پہلے سے وسیع پیمانے پر جاری محاصرے کو مزید سخت کر دیا۔ اس محاصرے کے جزوی نفاذ میں مصر بھی شامل ہے، جس کی جنوب مغربی سرحد غزہ سے ملتی ہے۔ اسرائیل اور ایک حد تک مصر فلسطینیوں کے زیر قبضہ علاقوں تک زمینی، سمندری اور فضائی رسائی کو کنٹرول کرتے ہیں۔
غزہ کی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ زیادہ تر آبادی شدید غربت کا شکار ہے اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ حماس نے غزہ سے اسرائیل پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ تنظیم انہیں ''اپنا دفاع'' قرار دیتی آئی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ساتھ اب تک اس گروپ کی چار بڑی مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
2008: غزہ کی پہلی جنگ
فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے اسرائیلی شہریوں اور غزہ پٹی کے قریبی علاقوں پر بار بار راکٹ فائر کیے جانے کے بعد اسرائیل کی ناکہ بندی کی پالیسی کا آغاز ہوا تھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے ہی فریقین میں کشیدگی بڑھی اور یہ 27 دسمبر 2008 کو پہلی غزہ جنگ کا باعث بنی، جس کا اختتام 18 جنوری 2009 کو ہوا۔
غزہ میں حماس اور اسرائیل کے مابین 14 نومبر 2012 کو ایک اور جنگ چھڑی جو تب آٹھ دن تک جاری رہی تھی۔
صرف ڈیڑھ سال بعد 8 جولائی 2014 کو غزہ سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جانے کے بعد غزہ کی تیسری جنگ شروع ہوئی۔ یہ 26 اگست کو عارضی جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی۔
پھر 10 مئی 2021 کو حماس کی جانب سے یروشلم پر راکٹ فائر کیے جانے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔ یہ تنازع مشرقی یروشلم میں شیخ جراح نامی محلے میں فلسطینیوں کی ان کے مکانات سے جبری بے دخلیوں اور ٹیمپل ماؤنٹ اور مسجد اقصیٰ میں تشدد کے باعث کئی ہفتوں کی بدامنی کے بعد شروع ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 21 مئی 2021 کو غزہ پٹی میں 260 اور اسرائیل میں کم از کم 10 افراد کی ہلاکت کے بعد ایک جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی۔
چھ اکتوبر 2023 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی طور پر بڑے حملے کے بعد اب تشدد کی آگ ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل ''حالت جنگ'' میں ہے اور انہوں نے سخت جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔
حماس کو راکٹ کہاں سے ملتے ہیں؟
گزشتہ چند دنوں کے دوران غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب داغے گئے راکٹوں کی تعداد غیر معمولی رہی۔ اسرائیل کے خلاف حملے کے پہلے روز یعنی ہفتے کے دن حماس کے ایک ترجمان نےکہا تھا کہ مختلف اسرائیلی اہداف پر پانچ ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے۔ اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے ان میں سے زیادہ تر کو ناکارہ بنا دیا۔ تاہم اس دفاعی نظام پر آنے والا خرچہ حماس کے راکٹوں سے کہیں زیادہ ہے۔
حماس کئی برسوں سے ایران کے فراہم کردہ راکٹوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں میزائل ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور کے ماہر فابیان ہانس نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو بتایا کہ غزہ میں سرگرم عسکری گروپوں نے اپنے پاس موجود راکٹوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس کی تصدیق اسرائیلی میڈیا نے بھی کی ہے۔
ہانس کے مطابق غزہ میں ایرانی راکٹ سوڈان اور مصر کے ذریعے سمگل کیے جاتے تھے۔ تاہم سن 2019 میں سوڈان سے عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ کام مشکل ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے حماس اب بیرونی تعاون کے ساتھ اپنے زیادہ تر میزائل غزہ پٹی ہی میں بنا رہی ہے۔
ش ر ⁄ ع ب، م م (ڈی ڈبلیو، نیوز ایجنسیوں کے ساتھ)
یہ مضمون ابتدا میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔