1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت، خان اور اسٹیبلشمنٹ، سبھی اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں

4 نومبر 2022

سابق وزیر اعظم عمران خان پر فائرنگ کے تحقیقات جاری ہیں۔ جائے واردات سے گرفتار کیے گئے ملزم نوید کو لاہور میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے خصوصی سیل میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/4J3cx
عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ ان پر حملے کے ذمہ دار وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور میجر جنرل فیصل ہیں
عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ ان پر حملے کے ذمہ دار وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور میجر جنرل فیصل ہیںتصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

ملزم نوید کا پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر میں موجود ایک افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان فائرنگ کیس کی تمام تحقیقات کی ذمہ داری محکمہ انسداد دہشت گردی کو دے دی گئی ہے۔ اب  پنجاب پولیس کا ان تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ابتدائی تحقیقات میں ملزم نوید نے تحقیقات کرنے والے پولیس افسروں کو بتایا کہ اس کا ٹارگٹ صرف عمران خان تھے اور اس نے تنہا یہ کارروائی کی ہے۔ ملزم نے بتایا کہ اس نے مذہبی وجوہات کی بنا پر فائرنگ کا فیصلہ کیا۔

ادھر فرانزک ماہرین وزیر آباد میں جائے حادثہ سے شواہد اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔ جمعے کی دوپہر تک اس کیس کی ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکی تھی۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ درخواست موصول ہونے کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بتایا ہے کہ یہ مقدمہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی مدعیت میں درج کروایا جائے گا۔

حکومتی عہدیداروں پر الزام

اس سے پہلے پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر اور میاں اسلم اقبال نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں عمران خان کا پیغام جاری کیا، جس میں ان کے مطابق عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ ان پر حملے کے ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور میجر جنرل فیصل ہیں۔

 اس بیان میں ان تینوں افراد کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ایف آئی آر بھی ان کے خلاف درج کروائی جائے گی۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات مکمل ہوئے بغیر کسی پر الزام لگا دینا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری

پنجاب بھر میں اس وقت سکیورٹی ہائی الرٹ ہے، اہم جگہوں پر پولیس کی نفری تعینات کی گئی ہے۔ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر مسافروں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔ تقریبا تمام بڑے شہروں سے احتجاجی مظاہروں کی خبریں آ رہی ہیں۔ بعض جگہوں پر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ گزشتہ رات فیصل آباد میں احتجاجی مظاہرین نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے گھر کا گھیراؤ کیا۔

عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان میں احتجاجی مظاہرے

 آج پنجاب بار کونسل کی اپیل پر کئی جگہوں پر عدلتوں کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ ادھر لندن میں نواز شریف کی رہائش کے باہر بھی احتجاج ہو رہا ہے۔

احتجاجی مظاہرین کی طرف سے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال میں پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہٰی کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان پر حفاظتی انتظامات نہ کرنے، نئے ضلع وزیر آباد کو انتظامی مشینری فراہم نہ کرنے اور دوران حراست ملزم کی ایک مشکوک ویڈیو جاری ہونے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ہلاک ہونے والا معظم گوندل کون ہے؟ 

 وزیرآباد میں گولی لگنے سے ہلاک ہونے والے معظم گوندل کی نماز جنازہ جمعے کی سہ پہر ادا کر دی گئی۔ چھتیس سالہ معظم شادی شدہ تھے اور ان کے لواحقین میں ایک بیوہ کے علاوہ تین بچے شامل ہیں۔ معظم اورسیز پاکستانی تھے اور کویت میں اے سی ٹکنیشن کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ تین ہفتے پہلے چھٹی پر پاکستان آئے تھے۔

ان کے کزن چوہدری عثمان گوندل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی مقامی قیادت تو ان کے رابطے میں ہے لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کا کوئی فرد ابھی تک ان کے پاس نہیں آیا۔ ان کے مطابق کسی حکومتی شخصیت نے بھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

عمران خان پر فائرنگ کے فوری بعد کے مناظر

عثمان گوندل کا کہنا تھا، ’’ہمارا بھائی شہید ہے۔ وہ فائرنگ کرنے والے شخص کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا، اسی دوران اس کو گولی لگی۔‘‘

عثمان گوندل نے یہ بھی بتایا کہ معظم کی فیملی کا آبائی علاقہ بروکی چیمہ ہے اور وہ کچھ عرصہ پہلے ہی وزیر آباد شفٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اب ان یتیم بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ذریعہ آمدن باقی نہیں رہا۔ اس حوالے سے سب کو سوچنا چاہیے۔ 

کیا لانگ مارچ جاری رکھا جائے گا؟

ادھر لاہور کے شوکت خانم ہسپتال میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جمع ہے۔ وہاں ہونے والے ایک اجلاس میں آج لانگ مارچ جاری رکھنے یا نہ رکھنے اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کا فیصلہ خان صاحب کی صحت اور سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔ دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے بھی آج تازہ صورت حال پر غور کے لیے اپنا ہنگامی سربراہی اجلاس آج طلب کر لیا ہے۔

عمران خان کی صحت اب بہتر ہے۔ ان کی ٹانگ سے گولیوں کے ذرات ایک آپریشن کے ذریعے نکال دیے گئے ہیں اور ان کی حالت مکمل طور پر خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔

عمران خان پر حملے کی عالمی سطح پر مذمت

دنیا بھر سے اس واقعے کے خلاف مذمتی بیانات موصول ہو رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، یورپی یونین اور سعودی عرب سمیت کئی ملکوں نے عمران خان پر حملے کی مذمت کی ہے۔

تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ساری صورتحال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان دونوں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے بقول اگر حکومت، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کسی مفاہمت پر نہ پہنچ سکے تو پھر ملک میں لمبے عرصے کی ٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لا کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکے گا۔