خاتون روسی صحافی آنا پولِٹ کووسکایا کے کیس کی تحقیقات
28 اگست 2007جب روسی اٹارنی جنرل ژُوری چائیکا نے ملک میں سلامتی کی صورتِ حال اور روس میں حالیہ دہشت پسندانہ حملوں کے سلسلے میں صدر ولادی میر پوٹین کے ساتھ ملاقات کی تو ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک سال پہلے قتل ہو جانے والی خاتون روسی صحافی آنا پولِٹ کووسکایا کے کیس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔
ژُوری چائیکا کے مطابق مقتول صحافی Politkovskaya کے کیس میں کافی زیادہ پیشرفت ہوئی ہے اور اب تک اِس کیس کے سلسلے میں دَس افراد گرفتار کئے گئے، جن پر جلد ہی اِس سنگین جرم کے لئے فردِ جرم عاید کی جائے گی۔
28 اگست کے روسی اخبارات نے یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ زیادہ تر اخبارات نے پراسیکیوٹر جنرل چائیکا ہی کی تائید میں اشارے سے یہ کہا کہ یہ قتل لندن میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ماسکو حکومت کے سخت حریف بورِس بے رے زووسکی کے حکم پر ہوا اور اِس کا مقصد روس میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنا اور روسی حکومت کو بدنام کرنا تھا ۔ یہ وہی بات ہے، جو سات اکتوبر سن 2006ء کو پولِٹ سکووسکایا کے قتل پر ماسکو حکومت کی طرف سے کہی بھی گئی تھی۔ تاہم آزاد اخبار نووایا گازیٹا نے، جہاں یہ مقتول صحافی کام کرتی تھی، زیادہ اہمیت اِس انکشاف کو دی ہے کہ یہ کام پولیس اور فیڈرل سیکیورٹی سروس FSB کے حاضرسروِس اور سابق اہلکاروں کاہے۔ اپنے ادارے میں اخبار لکھتا ہے کہ اِس سے مقتدر ڈھانچوں اور مجرمانہ سرگرمیوں کا وہ تعلق ثابت ہو گیا ہے ، جس کے بارے میں آنا پولٹ سکووسکایا لکھا کرتی تھی اور یہ کہ اِس گٹھ جوڑ کی مزید تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی اور ملتے جلتے کیسوں کی گتھیاں بھی سلجھ جائیں گی۔
پراسیکیوٹر جنرل چائیکا نے بھی اِس اخبار کی تعریف کی۔ چائیکا نے کہا کہ وہ اخبار نووایا گازیٹا اور اُس کے ادارتی عملے کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جن کی عملی مدد سے اِس کیس کو حل کیا جا سکا۔
دو بچوں کی ماں، 48 سالہ پولِٹ سکووسکایا نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر چیچنیہ اور شمالی قفقاز میں سیکیورٹی فورسز کے مظالم پر سے پردہ اُٹھایا اور اُنہیں اپنے قتل سے پہلے متعدد مرتبہ دھمکیاں بھی دی گئیں۔ قتل کے کیس میں روسی محکموں کی عدم دلچسپی کے پیشِ نظر امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش اور یورپی رہنماؤ ں نے روسی صدر پوٹین کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ موضوع اُٹھایا اور اُن پر زور دیا کہ وہ اِس قتل کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔
پولِٹ سکووسکایا کے وکلاء نے قتل کے اِس کیس میں تازہ پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اِس کیس میں سیاست کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ اُدھر لندن میں جلاوطن روسی شخصیت بورِس بے رے زووسکی نے بھی کہا ہے کہ حکومت اِن تازہ انکشافات کے ذریعے کوئی سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
بین الاقوامی تنظیم Reportres without Borders نے اِس خاتون صحافی کے قتل سے متعلق مزید تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اِس بات کو ہدفِ تنقید بنایا ہے کہ روس میں ماضی میں صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہیں دی گئی۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے اب تک روس میں 219 صحافی قتل ہو چکے ہیں، جن کی موت کا معمہ پورے طور پر حل نہیں کیا جا سکا۔ صرف اِس سال اب تک پانچ صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔