1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاشقجی کا قتل: سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل

22 اکتوبر 2018

جرمن چانسلر میرکل نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے باعث سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی ہے جب کہ جرمن وزیر اقتصادیات نے مطالبہ کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے معاملے میں پورے یورپ کو متحد ہو جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/36wEh
جمال خاشقجیتصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo

وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے سعودی عرب کے اس اعتراف کے بعد کہ جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ہلاک ہو گئے تھے، کہا ہے کہ ابھی تک ریاض حکومت ان حقائق کی تسلی بخش وضاحت نہیں کر سکی کہ سعودی حکمرانوں پر تنقید کرنے والے سعودی عرب ہی کے شہری اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خاشقجی کی موت قونصل خانے میں کن حالات میں اور کیوں ہوئی۔

چانسلر میرکل نے کہا کہ جب تک ریاض حکومت خاشقجی کی موت کے اسباب اور حالات کی مکمل اور تسلی بخش وضاحت نہیں کرتی، سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل رہے گی۔

سال رواں کے دوران برلن حکومت سعودی عرب کو 400 ملین یورو سے زائد مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے چکی ہے۔ یہ رقم قریب 462 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ اس طرح سعودی عرب شمالی افریقی ریاست الجزائر کے بعد اس سال جرمن ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

Türkei Sicherheitspersonal im Konsulat von Saudi Arabien in Istanbul
استنبول میں سعودی قونصل خانے کے مرکزی دروازے میں کھڑا ایک سعودی سکیورٹی اہلکارتصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

یورپی یونین کے متفقہ موقف کا مطالبہ

اسی دوران جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو میں پیر بائیس اکتوبر کو کہا کہ جمال خاشقجی کی ہلاکت اتنا بڑا اور اہم معاملہ ہے کہ پورے یورپ کو اس پر متحدہ ہو کر ایک متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔

آلٹمائر نے کہا، ’’جرمن ‌حکومت میں شامل جماعتیں اس بارے میں متفقہ رائے کی حامل ہیں کہ چونکہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ جمال خاشقجی کی موت کیوں اور کن حالات میں ہوئی، اس لیے سعودی عرب کو فی الحال جرمن ہتھیاروں کی ہر طرح کی فراہمی روک دی جائے۔‘‘

پیٹر آلٹمائر سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ جرمنی اور سعودی عرب کے درمیان اس عرب بادشاہت کو جرمن ساختہ ہتھیاروں کی فراہمی کے جو معاہدے ماضی میں طے پائے تھے، آیا ان پر عمل درآمد بھی روک دیا جائے گا اور اگر ہاں تو کب تک، اس پر جرمن وزیر اقتصادیات نے کہا، ’’جی ہاں، بہت ہی جلد۔‘‘

ساتھ ہی آلٹمائر نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کی رکن تمام دیگر ریاستوں کو بھی سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی روک دینا چاہیے تاکہ متحد ہوکر ریاض حکومت پر نتیجہ خیز دباؤ ڈالا جا سکے۔

دریں اثناء جرمنی کے کئی سرکردہ سیاستدانوں نے جرمنی کے بہت بڑے صنعتی گروپ سیمنز کے سربراہ جو کیزر سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سیمنز بھی سعودی عرب میں اس بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت نہ کرے، جو اسی ہفتے ہو رہی ہے۔

سعودی وزیر خارجہ کا اعتراف

جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں گئے تھے اور اس کے بعد سے مسلسل لاپتہ تھے۔ پھر کل اتوار اکیس اکتوبر کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ خاشقجی قونصل خانے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

عادل الجبیر نے سعودی حکمرانوں کے ناقد اس صحافی کی ہلاکت کو ’ایک بہت بڑی اور سنگین غلطی‘ قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ خاشقجی کی ہلاکت چند افراد کی ’انفرادی مجرمانہ کارروائی‘ کا نتیجہ تھا، جس کا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Symbolbild Deutsche Rüstungsexporte nach Saudi-Arabien | Küstenschutzboot
سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer

اذیت ناک تفصیلات

جمال خاشقجی کے قتل کی جو تفصیلات ترک میڈیا میں سامنے آئی ہیں اور جن میں ترک تفتیشی ماہرین کے پاس دستیاب حقائق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان کے مطابق خاشقجی کو سعودی کمانڈوز کی ایک ایسی 15 رکنی ٹیم نے قتل کیا، جو دو اکتوبر کو خاص طور پر استنبول پہنچی تھی۔ ان سعودی اہلکاروں کو علم تھا کہ اس روز خاشقجی کو استنبول کے اس سعودی قونصل خانے آنا تھا۔

انہی میڈیا رپورٹوں کے مطابق 59 سالہ خاشقجی کو اپنی شادی کے لیے سعودی قونصل خانے سے ایک سرکاری دستاویز لینا تھی۔ لیکن جب وہ سفارتی مشن کے اندر پہنچے تو وہاں پہلے ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں، پھر انہیں قتل کر کے ان کے لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ سعودی حکام ابھی تک یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ خاشقجی کی لاش کہاں ہے یا اس کا کیا بنا۔

م م / ع ت / روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے