خمینی کی وطن واپسی کو35 برس بیت گئے
1 فروری 2014آج سے ٹھیک 35 برس قبل آیت اللہ روح اللہ خمینی اپنی جلا وطنی ختم کرتے ہوئے واپس ایران پہنچے تھے۔ ایرانی نژاد جرمن مصنف بہامن نروماند نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ خمینی کی واپسی پر ایران میں جشن کا سا سماں تھا۔
آیت اللہ خمینی کی سیاسی سوانح عمری سمیت متعدد کتابوں کے مصنف بہامن نروماند نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے ابتدائی لمحات کے بارے میں بتایا کہ اُس موقع پر تمام لوگوں کو ایک بہتر زندگی کی امید تھی اور وہ اسلامی انقلاب کو آمر یت کے خاتمے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ان کے بقول اس انقلاب کے ابتدائی نعرے آزادی اور خود مختاری تھے جبکہ اسلامی جمہوریہ کا نعرہ اس کے بعد لگایا گیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران میں شاہ کے دور اقتدار کے خاتمے سے چند ہفتے قبل اور اقتدار ختم ہونے کے بعد کے مناظر اتنے ڈرامائی تھے کہ ویسے مناظر انہوں نے کبھی فلموں میں بھی نہیں دیکھے۔
شاہ اور اُس وقت کی ایرانی اشرافیہ کے خلاف تحریک کافی عرصے سے جاری تھی لیکن اس میں جوش نہیں تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ 1978ء اور 1979ء میں اس تحریک میں تیزی آنے کی وجہ کیا تھی، بہامن نروماند کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کئی نظریات ہیں۔ تاہم ان کے خیال میں صرف غربت اس کی وجہ نہیں تھی۔ ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ دو مسائل ایسے تھے، جن کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق تھا۔ ایک تو تیل کی خرید و فروخت کی وجہ سے ایران ایک اقتصادی قوت بنا اور اس کے ساتھ ہی ملک میں متوسط طبقہ مستحکم ہو گیا تھا۔ اپنی حیثیت کو سمجھتے ہوئے اس طبقے نے سیاست میں کردار ادا کرنے کے لیے آواز بلند کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کو اسی مطالبے کی وجہ سے بہت زیادہ تحریک ملی۔ اس سلسلے میں ہونے والی ابتدائی مظاہروں میں سرکاری ملازمین، اساتذہ، طلبہ اور ادیب وغیرہ شامل تھے۔ ان کا نعرہ تھا’ آزادی اور خود مختاری‘۔ اُس دور میں ایران کا امریکا پر انحصار بڑھتا جا رہا تھا اور اسی کے خلاف لوگ باغی بھی ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 1979ء میں آنے والا انقلاب صرف اسلامی نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی انقلاب بھی تھا۔ ان کے بقول شاہ رضا پہلوی ایران میں مغربی ثقافت کو پروان چڑھانا چاہتے تھے جبکہ آیت اللہ خمینی نے ایران کو اس کی ثقافتی پہچان واپس دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ آج کے ایران میں آیت اللہ خمینی کا کیا کردار ہے، اس بارے میں بہامن نروماندکہتے ہیں کہ ابھی بھی ایران میں آیت اللہ خمینی کا بہت زیادہ اثر ہے۔ شروع میں نوّے فیصد ایرانی خمینی کے حامی تھے اور اِن میں بائیں بازو کی قوتیں بھی شامل تھیں کیونکہ ان کے خیال میں خمینی کے بغیر شاہ کے اقتدار کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ نروماند کا موقف ہے کہ اسی وجہ سے اُن کو ابھی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی پر تنقید کرنے کی ہمت تو کوئی نہیں کرتا لیکن لوگ کھلے عام اُن کی شخصیت کو موضوعِ بحث ضرور بناتے ہیں۔۔