خوراک کے نئے بحران کا خطرہ نہیں، ایف اے او
15 جنوری 2011عالمی ادارے کی خوراک و زراعت سے متعلق اس تنظیم کے مطابق اس وقت بین الاقوامی سطح پر اشیائے خوراک کی دستیابی سے متعلق کسی نئے بحران کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ زرعی اجناس کے کافی زیادہ ذخائر موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے اسی ادارے کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر اشیائے خوراک کی قیمتیں 1990 میں اپنی ریکارڈ سطح کے بعد سے اب تک کی اپنی سب سے اونچی شرح تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر حالیہ موسمیاتی رجحانات بھی اشیائے خوراک کی قیمتوں پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
سن 2008 میں اشیائے خوراک کی دستیابی سے متعلق بحران کے پس منظر میں بہت سے ملکوں میں پالیسی سازوں کے لیے ایسی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ان کے پالیسی ایجنڈے میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ اس لیے کہ یہی بڑھتی ہوئی قیمتیں مختلف معاشروں میں بد امنی اور فسادات کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے علاقائی نمائندے ہِیرویُوکی کونُوما نے ٹوکیو میں خبر ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک انٹر ویو میں کہا کہ اشیائے خوراک کی دستیابی اور طلب کی صورتحال اس وقت قابل توجہ تو ہے لیکن مجموعی طور پر حالات اتنے تشویشناک نہیں جتنے 2008ء میں دیکھنے میں آئے تھے۔
کونُوما نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر اشیائے خوراک کے کافی ذخائر اس بات کا ثبوت ہیں کہ فی الحال کسی تشویش کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور موجودہ صورتحال کو کسی خطرے کا پیش خیمہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کونُوما کے بقول اس وقت اشیائے خوراک کے عالمی ذخائر کا حجم کل سالانہ پیداوار کے پچیس فیصد کے برابر ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سطح پر انسانی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی اشیائے خوراک دستیاب ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اشیائے خوراک کے موجودہ ذخائر میں آئندہ چند برسوں میں مسلسل کمی ہوتی رہی، تو پھر صورتحال حقیقی معنوں میں تشویش کا باعث ہو گی۔
ایف اے او نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اس ادارے کا اشیائے خوراک کی قیمتوں کا انڈکس دسمبر میں مسلسل چھٹی مرتبہ اور بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ اس دوران گندم ، چاول اور مکئی، جو خوراک کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اجناس ہیں، کی قیمتیں اگست دو ہزار آٹھ کے بعد سے اب تک کی اپنی سب سے اونچی سطح تک پہنچ گئی تھیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک