خون کی منتقلی: پیچیدگیوں کا سبب تلاش کر لیا گیا
28 دسمبر 2009گرائفس والڈ یونیورسٹی اور شہر ہاگن میں جرمن ریڈ کراس کی خون کی منتقلی سے متعلق سروِس کے طبی ماہرین نے خون کے سفید خَلیوں پر ایک نئی پروٹین دریافت کی ہے۔ ٹرانس فیوژن میڈیسن کے پروفیسر آندریاز گرائناخر بتاتے ہیں، کہ خون کی منتقلی کے بعد مریض کے جسم میں موجود اِس پروٹین پر عطیہ کرنے والے کے خون میں موجود دافِع جسم خَلیے جُڑ سکتے ہیں۔
اِس عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مریض کے جسم کے سفید خَلیے آپس میں جُڑنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے پھیپھڑوں کی بہت ہی باریک نسوں میں خون کی آمدورفت رُک جاتی ہے۔ پروفیسر گرائناخر کے مطابق نوبت پھیپھڑے میں خون بہہ نکلنے تک بھی پہنچ سکتی ہے اور ایسی صورت میں مریض کے لئے سانس لینا دُشوار ہو جاتا ہے۔
اِس دریافت کے نتیجے میں آئندہ مریضوں کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے شدید قسم کے نقصان کو روکنے میں مدد مل سکے گی۔ آئندہ خون کا عطیہ دینے والے افراد کے خون کے ایک عام سے تجزیے سے یہ پتہ چلایا جاسکے گا کہ آیا اُن کے جسم میں یہ ضرر رساں دافِع جسم خَلیات موجود ہیں۔ اِن خَلیات کی موجودگی کی صورت میں عطیہ دینے والے کو خون دینے سے روک دیا جائے گا۔ یہ خَلیے خود عطیہ دینے والے کے لئے بے ضرر ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ہر 10 ہزار میں سے ایک یا دو مریض خون کی منتقلی کے دوران مہلک پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اِس تحقیق کے نتائج جریدے ’’نیچر میڈیسن‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: افسر اعوان