خيبر ايجنسی ميں غاروں ميں رہائش آج بھی ايک حقيقت
31 مارچ 2018رحمہ گل خيبر ايجنسی کے ايک ايسے ہی غار کی رہائشی ہے۔ سر پر جست کا مٹکا اُٹھائے چھ ماہ کے حمل کے ساتھ پہاڑ کی چڑھائی چڑھتی رحمہ نے بتایا کہ عورت کی حالت کچھ بھی ہو لیکن پانی کی ضرورت پوری کرنا اس کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ فرزانہ علی نے سوال کيا کہ اس طرح تو ان کی اور بچے کی صحت متاثر ہو سکتی ہے، تو رحمہ نے جواب ديا، ’’ہاں۔ ہوسکتی نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں کس کو پروا ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ بچے تو ہمیشہ سے ہی پیدا ہوتے آئے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے جوآج کل کی لڑکیاں نخرے کرتی ہیں۔ تو بس پھر ہم بھی چپ ہو جاتے ہیں۔ کیا کریں؟‘‘
فرزانہ علی نے سوال کيا، ’’کیا کبھی اس طرح کے کیسز میں کسی عورت کا حمل گرا؟‘‘ تو جواب ميں رحمہ گل نے بتايا، ’’ہاں۔ کئی بار عورتوں کے ساتھ ایسا ہوا لیکن خدا کی رضا سمجھ کر بھلا دیا گیا۔‘‘ اس عورت نے مزيد بتايا کہ دن میں کتنی بار پانی لانا پڑتا ہے، اس کا دارومدار استعمال پر ہے۔ کھبی دو دفعہ، تو کبھی تین مرتبہ۔ رحمہ نے ايک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتايا کہ وہاں ایک کنواں ہے، جہاں جا کر سب عورتیں کپڑے دھوتی ہیں۔
غار کے اندر کی زندگی کچھ اور ہی تھی۔ تیز روشنی سے ایک دم اندھیرا۔ ایک طرف رکھی دو چارپائیاں۔ ايک دیوار پر لٹکائے گئی اشیائے خرد و نوش کی تھیلیاں، چند پرانے برتن اور کیلیں لگا کر لٹکائے گئے کپڑے۔ زمین پر پڑی دو تین گھی کی خالی پلاسٹک کی بالٹیاں، روٹی کی جنگیر اور گیس کا چھوٹا سا سلینڈر۔ یہ تھی اس غار میں رہائش پذیر افراد کی کل کائنات۔ رحمہ نے دوسری چارپائی پر لیٹے کم عمر لڑکے سے اس کی طبیعت پوچھی۔ جواب میں اس نے بڑے دھيمے انداز سے ہاں میں جواب دیا۔
رحمہ ن۔ے بتايا کہ وہ بیمار ہے اور پشاور سے علاج جاری ہے کيونکہ وہاں تو کوئی ڈسپنسری تک نہیں۔ علاج کے ليے ان لوگوں کو جمرود یا پھر پشاور جانا پڑتا ہے۔ رحمہ نے مزيد بتايا کہ اس کا شوہر مزدور ہے۔ رحمہ کے لہجے سے بے بسی صاف نظر آرہی تھی۔ اس نے بتايا کہ اس کی يوميہ آمدن پانچ یا چھ سو روپے ہے۔ رحمہ نے بتايا، ’’علاج معالجے، کھانے پینے اور باقی تمام ضروريات کے ليے اللہ کچھ نہ کچھ وسیلہ بنا دیتا ہے۔ علاج کے لئے تو قرض لیا ہے۔رشتہ داروں سے۔‘‘
رحمہ نے اپنی داستان بيان کرتے ہوئے بتايا، ’’میری شادی تیرا برس کی عمر میں ہوئی اور پھر ہم یہاں آ گئے۔ صحیح یاد نہیں لیکن 17یا 18سال ہونے کو ہیں۔ وہاں طالبان آگئے تھے تو زندگی مشکل ہو گئی تھی۔ میرے شوہر نے کہا کہ جمرود چلتے ہیں کچھ روزگار بھی مل جائے گا۔ اور محفوظ بھی ہو جائیں گے۔ تو تب سے اب تک اسی غار میں رہ رہے ہیں۔‘‘
اسی دوران لگ بھگ تین سال کا ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور رحمہ کے کان میں کچھ کہنے لگا، جس پر رحمہ نے سامنے رکھی روٹی کی چنگیر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس میں دیکھو۔ بچے نے چنگیر کا ڈھکنا اُٹھایا اور اس میں سے باسی روٹی کا ٹکڑا نکال کر باہر کی طرف بھاگ گیا۔‘‘ رحمہ کے آٹھ بچے ہيں، جو سب کے سب اسی غار ميں پيدا ہوئے۔ اسے تو يہ معلوم ہی نہ تھا کہ بچے کی پيدائش کے عمل ميں طبی ماہرين کی مدد رکار ہوتی ہے۔ ’’میرے بچے اسی غار میں میرے شوہر کی پھوپھیوں نے پیدا کيے۔ یہاں اسی طرح محلے کی یا رشتہ دار عورتیں ہی یہ کام کرتی ہیں۔ آگے گاؤں میں جن کے پاس پیسے ہیں، وہ حاملہ عورتوں کو بچے کی پيدائش کے ليے جمرود یا پشاور لے جاتے ہیں۔‘‘ رحمہ نے بتايا کہ ماں اور بچے کھبی کھبی مر بھی جاتے ہیں۔ اُس نے انتہائی سنجیدہ بات کو ہنسی میں اُڑا دیا۔
ايک اور سوال کے جواب ميں رحمہ نے بتايا کہ خواتين رفع حاجت کے ليے صبح فجر سے پہلے پہاڑوں میں جايا کرتی ہيں۔
اپنی گفتگو سميٹتے ہوئے رحمہ نے کہا، ’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرا ایک گھر ہو، جہاں مہمانوں کے ليے بھی ایک کمرہ ہو، جہاں میں اور میرے بچے بغیر کسی خوف کے رہیں۔ نہ بارش کا غم ہو نہ زلزلے کا لیکن کیسے ممکن ہو گا يہ سب پانچ سو روپے يوميہ ميں، جو میرا شوہر اتنی مشکل سے کماتا ہے؟‘‘