دختران افغانستان کے درد کی داستان
9 ستمبر 2021ماضی قریب میں کابل ایئرپورٹ پر افرا تفری کے منظر بھولنے لائق نہیں ہیں۔ پر غور سے دیکھنے پر پتا چلتا ہے کے ان بھاگنے والوں میں عورتیں کم ہی تھیں۔ بس کوئی دو، چار ہی۔ شاید وہ اپنے گھروں میں بند ہیں اور ایئرپورٹ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہو پا رہا ہوگا۔
آج جب طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو گئے ہیں اور سارا عالم افغان خواتین کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہے، تو کئی برس پہلے میرے افغانستان کے سفر سے متعلق تصاویر ذہن و دل کو کریدنے لگی ہیں۔
گزشتہ برسوں میں دو بار افغانستان جانے کا اور وہاں ڈوکیومینٹری فلمز بنانے کا موقع ملا۔ یہ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد افغانستان کی تعمیر کا دور تھا۔ طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں خواتین پر ہوئے مظالم کے مناظر اور تب کے حالات پر نظر تو ذہن میں تھے ہی۔
یاد آتے ہیں کابل میں بالا حصار کے نزدیک گولیوں کے نشانوں سے چھلنی کھنڈر نما مٹی کے گھر جہاں سے بارودی سرنگیں ابھی تک صاف نہیں ہوئی تھی۔ نیلے برقعے میں ایک عورت، بچہ اٹھائے ہوئے اور ایک بھاری پوٹلی بھی۔ کچھ قدم پیچھے ایک جوان مرد، جس کے بنا وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتی تھی، اس کی حفاظت کے لیے۔ لیکن یہ صاف نظر آ رہا تھا کی در اصل وہ عورت، پوشیدہ لینڈ مائن کے خلاف اس آدمی کا فرنٹ لائن ڈیفنس تھی۔
یاد آتا ہے کابل کا باغ اے زنانا، جو خواتین کے لیے ایک خصوصی باغ ہے۔ اس چار دیواری میں نیلا برقعہ ندارد تھا۔ بچیوں کی کلکاریاں، خواتین کی ہنسی فضا میں گونج رہی تھیں۔ پکنک چل رہی تھی۔ کچھ کمروں میں سلائی کی مشین چلانا سکھایا جا رہا تھا تو کہیں کراٹے کی کلاس چل رہی تھی۔ خواتین کی صحت سے جڑے مسئلوں پر سنجیدہ گفتگو بھی چل رہی تھی۔ وہاں خواتین، ہندوستانی فلموں اور ہمسایے ملک میں گزارے ماہ و سال کے سبب، اردو جانتی تھیں۔ مجھے دیکھا تو ہندی فلموں کے ہیرو اور گانوں کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ اور ‘تلسی' کے بارے میں۔ ‘تلسی' یعنی مشہور ہندی ٹیلیویژن سیریئل 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا پشتو ترجمہ جو ان دنوں افغان ٹیلیویزن پر بے حد مقبول تھا۔
وہ کھل کے بات کر رہی تھیں اور یاد کر رہی تھیں افغانستان کے اچھے دن۔ ایک بزرگ خاتون کہہ رہی تھیں۔ '' 50 سال قبل افغانستان میں خواتین کے حقوق مغربی ممالک کے برابر تھے۔ ہم افغان ساٹھ اور ستر کی دہائی کو اپنے ملک کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔” افغان خواتین کو 1919 میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ تعلیم، لباس اور آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ 1970 کی دہائی تک کابل یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد60 فیصد سے زائد تھی۔ لیکن حملوں، جنگوں اور خون ریز بغاوتوں کے سبب یہ پیش رفت 1979 میں رک گئی۔ اور پھر 1996 سے 2001 تک طالبان نے جدت اور لبرل معاشرے کی طرف تمام کاوشوں کو الٹ دیا۔ باتوں باتوں میں محض طالبان لفظ کے ذکر سے یہ خواتین سہم گئیں۔ چپ ہو گئیں۔ اس دہشت کا سایا سالوں بعد بھی واضح تھا۔
کچھ برس بعد ایک بار پھر میں نے خود کو کابل میں پایا۔ سڑکوں پر عورتیں دکھنے لگی تھیں۔ بازاروں میں خرید فروکھت کرتی ہوئی، کام پر جاتی ہوئی۔ سکولی بچیوں کے بڑے گروپ صبح شام نظر آ جاتے تھے۔ کئی بار صرف لڑکوں کو کلاس روم تک رسائی حاصل تھی۔ لڑکیوں کو کھلے آسمان تلے، دھوپ اور بارش میں، تعلیم حاصل کرنی پڑتی تھی۔ اور جب انہیں بینچ اور ڈیسک دستیاب ہوتا تو وہ میز کو ڈھانپنے کے لیے اپنے گھر سے میز پوش ساتھ لاتیں تاکہ وہ خراب نا ہو۔ وہ مکتب کی دیواروں پر گرافٹی بناتیں۔ جملے لکھے جاتے تھے، ''جب بھی تم کاٹوگے، ہم پھر پھوٹ پڑیں گے‘‘ اور ''ہمیں روکنا ممکن نہیں۔‘‘
گزشتہ 20 سال میں افغانستان میں لڑکیوں کی ایک ایسی نسل تیار ہوئی ہے جنہوں نے آزادی کا ذائقہ چکھا ہے، جو ان کی ماؤں کو کبھی معلوم نہیں تھا۔ گو کئی بار ان کے اسکولوں کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے جس کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔
آج افغانستان کی نئی نسل نے طالبان کا دور اور طور نہیں دیکھا ہے۔ لیکن ان ہولناک وقتوں کی یادوں کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ حالیہ یاد دہانیاں بھی ہیں۔ طالبان کی جانب سے ہیرات میں مبینہ طور پر رومانوی تعلقات رکھنے کے الزام میں ایک خاتون کو سرعام کوڑے مارنے کا ویڈیو اپریل میں سامنے آئی تھی۔ اگست کے پہلے ہفتے میں بلخ میں نقاب نہ پہننے پر ایک 21 سالہ خاتون کو کار سے باہر کھینچ کر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے قبل، دسمبر 2020 میں صحافی مالالائی میوند کو گولی مار دی گئی۔ پچھلے دنوں کئی خواتین نیوز اینکرز کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے لیکن انہوں نے طالبان سے لڑنے والی صوبہ بلخ کی گورنر سلیمہ مزاری کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔
افغانستان میں آپ کا عورت ہونا شاید آپ کو قتل کرنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ سقوط کابل سے قبل ہی رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں 390 خواتین اور لڑکیاں ہلاک ہوئیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ اب تک کی سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تعداد ہے۔ یہ قتل و غارتگری اس بات کی سخت وارننگ بن گیا ہے کہ مستقبل میں کیا ممکن ہے۔
طالبان رہنماؤں نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ خواتین پڑھ بھی سکیں گی اور کام بھی کر سکیں گی، لیکن 'شرعی قوانین‘‘کے تحت۔
افغان خواتین کارکن خوفزدہ ہیں اور پوچھ رہی ہیں کہ شرعی قوانین کس کی تشریح والے ہوں گے۔ 2001 میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد، خواتین اس دہشت کے سائے سے باہر نکلیں اور عوامی زندگی میں ڈاکٹر، نرس، پولس افسر، فوجی، میڈیا اہل کار ، جج اور سیاستدان بن گئیں۔ ان میں سے کتنے پیشے اب 'شرعی‘ رہینؤں گے؟
کابل پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد بیوٹی پارلر کے مالکان اپنے سائن بورڈز، جن پر خواتین کے چہرے نظر آتے تھے، ان پر سیاہی پھیرتے نظر آئے اور زیادہ تر خواتین نے پریشانی سے بچنے کے لیے خود کو گھروں میں بند کر لیا۔ اگر طالبان اپنے ماضی کو دوہراتے ہیں تو خواتین کے لیے طالبان کی واپسی کا مطلب ایک بار پھر معاشرے کے مرکزی دھارے سے بے دخلی ہو سکتا ہے۔ جب میں یہ بلاگ لکھ رہی تھی، اسی دوران ہیرات میں طالبان نے مخلوط تعلیم پر پابندی عائد کر دی، ساری حالیہ یقین دہانیوں کے باوجود۔
سچ یہ بھی ہے کہ 2021 کا افغانستان 1996 کے افغانستان سے مختلف ہے۔ کابل، جلال آباد اور کئی دور دراز علاقوں میں طالبان کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ جن میں خواتین صفِ اول تھیں۔ مسلح طالبان نے انہیں گھیر لیا لیکن باہمت خواتین احتجاج کرتی، نعرے لگاتی اور مساوی حقوق کا مطالبہ کرتی نظر آئیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں اس ملک نے ترقی کا ایک نیا رخ دیکھا ہے۔ یہاں کے باشندے ترقی پر آمادہ ہیں، باقی دنیا کے ہم قدم ہیں، بذریعہ انٹرنیٹ عالمی فکر سے مسلسل جڑے ہوئے ہیں اور انصاف کے متلاشی ہیں۔ طالبان2.0 ایک نئے افغانستان میں آ رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کے عروج کے ساتھ خواتین، جنہیں طالبان 'زنانا‘ کہنا پسند کرتے ہیں، آہستہ آہستہ غائب ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔ پردہ اور دم گھوٹنے والی مذہبی پابندیوں کے پیچھے۔ پر آج، اپنے انسانی وقار کے ضیاع سے خوفزدہ دخترانِ افغانستان چاہتی ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے۔ ان کے سوال کئی ہیں۔
کیا لڑکیوں کو اسکول اور کالج اور عورتوں کو کام پر جانے دیا جائے گا؟ کیا وہ اکیلے جا پائیں گی؟ کیا پہنیں گی؟ کیا خوبصورت دکھنے، محبت کرنے کی آزاد ہوگی؟
مختصر سی بات یہ کی نجی طور پر مذہب میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن جب مذہبی جوش کسی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، تو ملک کی قسمت پر تالا سا لگ جاتا ہے۔