دل، قدرت کا ایک عظیم معجزہ
ہمارا دل پوری زندگی کے دوران قریب تین ارب مرتبہ دھڑکتا ہے۔ یہ ہر منٹ میں تقریباﹰ پانچ لٹر خون پمپ کرتا ہے۔ مگر زندگی کا یہ انجن دراصل کام کیسے کرتا ہے؟
حیران کُن سکشن اور پریشر پمپ
ایک بند مُٹھی کی شکل اور حجم رکھنے والا قدرت کا حیران کن معجزہ روزنہ قریب 10 ہزار لٹر خون ہمارے جسم میں پمپ کرتا ہے۔ اور یہ عمل زندگی کے آخری لمحے تک بغیر رُکے جاری رہتا ہے۔ جاگنگ وغیرہ کے دوران خون کی پمپ کی جانے والی مقدار پانچ گنا تک بڑھ جاتی ہے۔
مکمل طور پر عضلات کا کام
دل محض مسلز یا عضلات سے مل کر بنا ہے تاہم یہ بہت ہی خاص ہے۔ یہ ٹانگوں اور بازوؤں کے عضلات سے ملتا جلتا ہے کیونکہ یہ بہت طاقت کے ساتھ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ مگر خاص بات یہ ہے یہ کہ دیگر عضلات کی طرح یہ کبھی تھکتا نہیں۔
اوپن ہارٹ سرجری
دل کے آپریشن کے لیے ڈاکٹروں کو دل کی دھڑکن کچھ وقت کے لیے روکنا پڑتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹروں نے 50 کی دہائی میں ایک ہارٹ-لنگ مشین یعنی مصنوعی دل اور پیپھڑوں جیسی مشین تیار کی تھی۔ جس دوران دل کا آپریشن مکمل کیا جاتا ہے یہ مشین مریض کو زندہ رکھتی ہے۔
رگوں کے ذریعے دل تک
دل کے آپریشن کے لیے اب ڈٓاکٹروں کو مریض کا سینہ کاٹنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اب یہ عمل ایک خاص مشین کے ذریعے تکمیل پاتا ہے۔ اس میں ایک ڈاکٹر ایک خصوصی لچکدار آلے کو مریض کے بازو میں موجود رگ کے ذریعے دل تک پہنچاتا ہے اور دل میں موجود مسئلے کو دور کرتا ہے۔ اس دوران مریض کو محض لوکل انستھییزیا دیا جاتا ہے۔
تہہ ہونے والا دل کا والو
اگر دل کا کوئی ایک والو خراب ہو جائے تو اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے یا تو کسی مخصوص جانور یا دھاتی والوو کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اب ایسے بھی مصنوعی والوو تیار کر لیے گئے ہیں جو تہہ ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ایک باریک سوراخ کے ذریعے سرجن اسے دل میں نصب کر دیتا ہے اور اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت نہیں پڑتی۔
رگوں میں رکاوٹ
کورونری آرٹریز یا شریانیں ہمارے جسم کے خلیوں تک خون کے ذریعے خوراک اور آکسیجن پہنچاتی ہیں۔ ایسی کسی شریان میں رکاوٹ نہ صرف ہمارے جسم کے عضلات کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے بلکہ ہارٹ اٹیک کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ایسی صورت میں سرجن بائی پاس آپریشن کے ذریعے متاثرہ رگ کے رکاوٹ والے حصے کو نکال دیتا ہے۔
زندگی بچانے والی دھات
اگر شریانوں کا اندورنی حصہ سکڑ جائے تو ڈاکٹر ایک نالی کے ذریعے شریان میں ایک ٹیوب سی داخل کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ شریان دوبارہ نہیں سکڑتی۔ یہ دھات کی بنی ٹیوبس ہوتی ہیں جو شریان کو اندر سے سپورٹ فراہم کرتی ہیں۔
ہارٹ ٹرانسپلانٹ
دنیا میں دل کا پہلا ٹرانسپلانٹ 1967ء میں کیا گیا۔ یہ اس وقت کی ایک بڑی خبر تھی۔ اب ہر سال دنیا بھر میں چند ہزار مریضوں میں ایسے ڈونرز کا دِل لگایا جاتا ہے جو انتقال کر چکے ہوتے ہیں۔ تاہم دل کا عطیہ حاصل کرنے والے مریض کو پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ادویات کے سہارے زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔
مصنوعی دِل
دل کا عطیہ کرنے والے افراد بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اسی باعث طبی ماہرین نے مصنوعی دل بھی تیار کیا ہے۔ مریض کا اپنا دل بھی جسم کے اندر رہتا ہے تاہم اسے لگائے گئے دل کے ذریعے مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس مصنوعی دل کے پمپ کو درکار بجلی جسم کے باہر سے فراہم کی جاتی ہے۔
پلاسٹک کا بنا دل
محققین اب ایک ایسے مصنوعی دل کی تیاری پر تحقیق کر رہے ہیں جو مکمل طور پر مریض کے اپنے دل کی جگہ لے سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ تو اسے باہر سے کرنٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہو اور نہ ہی بہت جلد کوئی نقص پیدا ہونے کا اندیشہ۔