1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فطرت اور ماحولشمالی امریکہ

دنیا بھر میں بہت سی آفات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ باہم مربوط

12 ستمبر 2021

ماحولیاتی آفات، وبائیں اور دوسرے بحرانوں کی افزائش اصل میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ تحقیق اقوام متحدہ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ میں سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/407Hy
Kenia BG l Bauern reagieren - Aus einer Heuschreckenplage wird Tierfutter
تصویر: Baz Ratner/REUTERS

امریکی ریاست ٹیکساس میں شدید سردی کی لہر، مشرقی افریقہ میں ٹدی دَل کی یلغار، چین میں ایک مچھلی کی قسم جو ڈائناسورز سے تو بچ گئی لیکن انسانوں سے محفوظ نہ رہ سکی اور معدوم ہو گئی۔ یہ سب گزشتہ برس کی چند آفات ہیں جنہیں غیرمعمولی قرار دیا گیا۔ بظاہر بیان کی گئی آفات جن علاقوں میں نازل ہوئی تھیں، وہ ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں اور ان کے بیچ سرحدوں کے علاوہ سمندر بھی حائل ہیں۔ لیکن ایک بات مشترک ہے۔

طوفانوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی سے لاکھوں انسان بے گھر

اسی مشترک بات کا سراغ اقوام متحدہ یونیورسٹی کے محققین نے لگایا ہے۔ محققین کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں پیدا ہونے والی شدید ترین آفتوں نے ایک دوسرے کی شدت کو بڑھایا اور بعض دفعہ انہیں انسانی سرگرمیوں نے بھی تقویت فراہم کی۔

Zyklon Amphan trifft Indien und Bangladesch
سمندری طوفانوں کے ساتھ موسلا دھار بارشوں نے انسانوں کی زندگیوں میں سنگین مشکلات بھر دی ہیںتصویر: Reuters

ایک دوسرے سے جڑے بحران

اقوام متحدہ کے تجزیہ کاروں کے مطابق ان بحرانوں میں تین وجوہات نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں ایک زمین کے اندر سے حاصل کیا جانے والا ایندھن (فوسل فیول)، دوسری خطرات سے نمٹنے کی کمزور انتظامی صلاحیت اور تیسری ماحولیاتی معاملات کے لیے فیصلہ سازی کو کم وقعت دینا۔

اس تناظر میں کئی آفات آپس میں مربوط ہیں۔ جیسا کہ ویتنام میں صرف دو ماہ میں نو طوفانوں کی آمد، جن میں موسلادھار بارشیں اور سیلابوں نے سارے ملک میں قہر برپا کر دیا۔ بنگلہ دیش میں کورونا وبا کے دوران ٹکرانے والا سمندری طوفان جو کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ تھا۔

کلائمیٹ چینج اب موضوع کے طور پر ویڈیو گیمز میں بھی

اقوام متحدہ کے سینیئر سائنسدان جیک او کونر، جو کہ اس تحقیقی رپورٹ کے محققین کی ٹیم کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ان آفتوں نے ایک دوسری کو سہارا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان یا وبا کو سامنا کرنے کے لیے انسانی ذہن میں کوئی فوری ریسپونس نہیں ہوتا لیکن اب نئی صورت حال میں ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔

Iran Dürre
دنیا کے کئی علاقوں میں بارشوں کے نا ہونے سے پرانی جھیلیں تک سوکھ کر رہ گئی ہیںتصویر: Ahmad Halabisaz/Photoshot/picture alliance

مسلسل شدید ہوتا موسم

اقوام متحدہ کی تحقیقی رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی جاری کردہ موسمیاتی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ گزشتہ پچاس برسوں میں جس قدر طوفان یا آفتیں آئی ہیں وہ اوسط اعتبار سے ایک دن ایک طوفان یا آفت بنتی ہے۔ ان میں سمندری طوفانوں سے لے کر قحط بھی شامل ہیں۔ روزانہ کی اوسط دیکھی جائے تو ان بحرانوں نے ہر روز ایک سو پندرہ انسان ہلاک اور دو سو دو ملین یورو کا مالی نقصان کیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ سمندری طوفانوں میں اضافے کے باوجود انسانی جانوں کے ضیاع میں کمی ہوئی ہے اور اس کی وجہ موسم کی صورت حال پر انسانی نگاہ ہے۔ بروقت موسمیاتی پشین گوئی انسانوں کو سمندری طوفانوں کا تر نوالہ نہیں بننے دی رہی اور ان کی قبل از وقت محفوظ مقام پر منتقلی کر دی جاتی ہے۔ بظاہر زندگیاں ضرور بچائی گئیں لیکن بے گھری بڑھ گئی ہے۔ سمندری طوفانوں میں اضافے کی بڑی وجہ فوسل فیول کا جلانا ہے، جو زمین کے بالائی ماحول کو گرم تر کرتا جا رہا ہے۔

یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں کہ زمین کے ماحول کے گرم ہونے سے آفتیں ایک دوسرے سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔

ٹیکساس کا طوفان ’ویک اپ کال‘ تھی، وائٹ ہاؤس کی مشیر

ماحولیاتی نظام اور آب و ہوا کو درپیش بحران

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ماحولیاتی نظام کو کلائمیٹ چینج کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آسٹریلیا کی مونگے کی چٹانوں میں گراوٹ بھی ماحولیاتی نظام سے جڑی ہے۔ بتایا گیا اگر گلوبل وارمنگ میں ڈیڑھ درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے تو مونگے کی چٹانیں ستر سے نوے فیصد تک کم ہو جائیں گی۔ جیک او کونر کے مطابق مونگے کی چٹانوں کو آلودگی اور مچھلیاں پکڑنے میں اضافے کا بھی سامنا ہے۔

Indien GUWAHATI TINSUKIA | Assam Überschwemmungen
زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے سمندری طوفانوں، بارشوں اور سیلابوں میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Prabhakarmani Tewari/DW

چین کے بڑے دریا یانگ سی کی پیڈل فِش گزشتہ برس پوری طرح نابود ہو گئی ہے کیونکہ اس کو انسانوں نے غیر معمولی طور پر زیادہ پکڑ کر کھا لیا ہے۔ اس کے نابود ہونے کی دوسری وجوہات میں دریا میں پائی جانے والی آلودگی اور اوپر کی جانب بند باندھنے کا سلسلہ ہے۔ اگر انسانی سرگرمیاں یو نہی منفی سمت چلتی رہیں تو سارے نظام کا منہدم ہو جانا یقینی ہے۔

فطرت سے دوستی ضروری: اقوام متحدہ کا منصوبہ

ایمیزون کے بارانی جنگلات کو کٹائی کے بحران کا سامنا ہے کیونکہ انہیں کاٹنے سے زمین صاف ہوتی ہے اور ان پر اگنے والی گھاس ایسے مال مویشی کی افزائش کے کام آتے ہیں جن کو انجام کار کاٹ کر عالمی آبادی کا بڑا حصہ اپنی لذتِ کام و دہن کی تکمیل کرتا ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ایمیزون اور دنیا کے دوسرے کے جنگلوں کی کٹائی سے گلوبل وارمنگ تیز تر ہو جائے گی۔

اجیت نرنجن (ع ح/ع ت)