1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں سب سے زیادہ صحافی مصری جیلوں میں

امتیاز احمد25 جون 2015

ایک عرصے سے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ حکومت کے خلاف جو بھی لکھتا ہے، اسے قید کر دیا جاتا ہے۔ لکھنے والوں پر بے انتہا پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں اور بہت سے صحافی ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FnV9
Ägypten Al-Jazeera Journalist Abdullah Elshamy vom Gefängnis freigesetzt
تصویر: picture-alliance/AP

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق مصر میں گزشتہ کئی ماہ سے قومی سلامتی کے نام پر آزادی رائے کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور اس ملک میں قید صحافیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت حکومت کے خلاف تنقیدی رپورٹنگ کی وجہ سے اٹھارہ مصری صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مصر میں 1990ء کے بعد سے زیر حراست صحافیوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ جمعرات پچیس جون کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’مصر میں ہر وقت قید کا خطرہ رہتا ہے اور اسے حکام میڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ حساس موضوعات سے متعلق تنقیدی آوازوں کو خاموش کرایا جا سکے۔‘‘

Al Jazeera Journalisten Verurteilt Kairo
تصویر: Reuters

مصر میں پریس فریڈم کمیٹی کے سربراہ خالد البالسی کا کہنا ہے کہ قید صحافیوں کی اصل تعداد تیس سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم مصری تاریخ میں جرنلزم کے بدترین ماحول میں سے گزر رہے ہیں۔‘‘ سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق حکومت زیادہ تر مقید صحافیوں کا تعلق مصر کی سیاسی اور مذہبی تحریک اخوان المسلمون سے جوڑتی ہے جبکہ قاہرہ حکومت نے اس جماعت کو کالعدم اور ’دہشت گرد‘ بھی قرار دے رکھا ہے۔ مصری جیلوں میں قید بہت سے صحافی اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ اخوان المسلمون کے حمایتی ہیں۔

ایک حکومتی اہلکار کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جاری کی گئی رپورٹ نہ تو منصفانہ ہے اور نہ ہی قید صحافیوں کی تعداد صحیح ہے۔‘‘ اس حکومتی اہلکار کا کہنا تھا کہ جیلوں میں قید تمام صحافی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے قید ہیں نہ کہ انہیں سیاسی یا آزادی سے بولنے کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مصر میں قید چھ صحافیوں کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ کئی صحافی مہینوں سے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے جیل میں پڑے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مقید صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔