مغربی دنیا کو ’خطرناک وائرس‘ کا سامنا ہے، ہیومن رائٹس واچ
13 جنوری 2017امریکی شہر نیو یارک میں اس تنظیم کی سالانہ عالمی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینَیتھ رَوتھ نے جمعرات بارہ جنوری کی شام صحافیوں کو بتایا، ’’پوری دنیا خاص کر مغربی دنیا میں مسلسل بڑھتی ہوئی پاپولزم یا سیاسی عوامیت پسندی عالمی سطح پر ایک شدید تر ہوتا جا رہا مسئلہ ہے۔‘‘
یورپ میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ عالمگیریت سے خوف
عوامیت پسند رہنماؤں کی بساط کا اگلا مہرہ اٹلی تو نہیں؟
’’یورپی یونین میں ’یونین‘ کی کمی‘‘
اس موقع پر چند صحافیوں نے اس تنظیم کے سربراہ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا کہ عوامیت پسندی کوئی نئی حقیقت نہیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں مطلق العنان آمر اور خود پسند حکمران تو عشروں سے اقتدار میں رہے ہیں۔
کینَیتھ رَوتھ نے، جو میڈیا کی طرف سے اپنے اس موقف سے ممکنہ اختلاف رائے کے لیے جیسے تیار تھے، کہا کہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی اس تازہ ترین سالانہ عالمی رپورٹ میں سیاسی عوامیت پسندی پر ہی سب سے زیادہ توجہ اس لیے دی ہے کہ اس وقت مغربی دنیا میں دائیں بازو کی سیاسی عوامیت پسندی کا رجحان تیز رفتاری سے پھیل رہا ہے۔
دائیں باز وکی پاپولزم آمریت کی طرف پہلا قدم
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا کہ ان کی تنظیم کی نظر میں دائیں بازو کی پاپولزم کے آمریت اور جابرانہ حکمرانی میں بدل جانے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس کے حق میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں:
۔ مغرب یعنی امریکا اور یورپ میں حکمران عشروں تک ایسے بہت بااثر وکیل بنے رہے، جنہوں نے انسانی حقوق اور جمہوریت کی سب سے کامیاب وکالت کی۔
۔ اب مغربی دنیا میں اگر زیادہ سے زیادہ حکمران شخصیات دائیں بازو کی عوامیت پسندی کے نعرے لگاتے ہوئے مسائل کے بظاہر ’سادہ سے حل‘ نکالنے کا دفاع کرنے لگی ہیں یا مستقبل قریب میں ایسے مزید سیاستدانوں کے اقتدار میں آ جانے کا امکان بہت زیادہ ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازیں مرتی جا رہی ہیں۔
۔ دائیں بازو کے پاپولسٹ رہنما مسائل کے صرف ’سادہ حل‘ پسند کرتے ہیں۔ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، تارکین وطن کی آمد کے مسئلے کے حل اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقتصادی عالمگیریت کے ماحول میں انسانی حقوق کو زیادہ سے زیادہ محدود یا انہیں سرے سے ہی نظر انداز کر دینا چاہتے ہیں۔ ایسے رہنماؤں کا موٹو ہے: ’’انسانی حقوق محض ایک رکاوٹ ہیں۔ ایسے حقوق کو سرے سے ختم ہی کر دیا جائے تو ہماری حالت بہتر ہو جائے گی۔‘‘
ٹرمپ کی انتخابی کامیابی بھی ایک ’غلط اشارہ‘
اسی تناظر میں ہیومن رائٹس واچ کی جرمن شاخ کے سربراہ وَینسل میشالسکی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی بھی عالمی سطح پر دائیں بازو کی سیاسی عوامیت پسندی کی مضبوطی کی طرف ایک خطرناک اشارہ ہے۔ یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری میں وکٹور اوربان جیسے حکمران تو ابھی سے ٹرمپ کے حوالے دینے لگے ہیں۔‘‘
میشالسکی کے مطابق ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان تو گزشتہ کئی برسوں سے اسی طرح کی سیاست کر رہے ہیں، جیسی امریکا میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں، جن کے 20 جنوری کے روز صدارتی منصب سنبھالنے میں اب صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔
یورپ میں انسانی حقوق کے لیے خطرات
ہیومن رائٹس واچ کی اس عالمی رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس سال اپریل میں ہونے والے صدارتی الیکشن کے ممکنہ طور پر دوسرے مرحلے میں اگر نیشنل فرنٹ نامی دائیں بازو کی پالولسٹ جماعت کی خاتون رہنما مارین لے پین اپنے بڑے حریف فرانسوا فِیوں کے مقابلے میں کامیاب ہو گئیں، تو یورپ میں آئندہ برسوں میں اسی سیاسی عوامیت پسندی کی گونج اور بھی بلند ہو جائے گی۔
اس کے برعکس ہالینڈ میں دائیں بازو کے پاپولسٹ سیاستدان گیئرٹ وِلڈرز بھی ایک مسئلہ تو ہیں لیکن وہ یورپ کے لیے فرانس کی مارین لے پین کے مقابلے میں ایک چھوٹا مسئلہ ہیں۔
اسی طرح جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کے سیاسی کردار کی تو ہیومن رائٹس واچ HRW نے کھل کر تعریف کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اسی سال ہونے والے جرمن پارلیمانی الیکشن کے نتیجے میں اگر اے ایف ڈی نامی رائٹ ونگ پاپولسٹ جماعت بھی برلن کی وفاقی پارلیمان میں پہنچ گئی، تو چانسلر میرکل کی سیاسی پوزیشن بہرحال کمزور پڑ جائے گی۔
دفاع کا آخری امکان
کینَیتھ رَوتھ کے بقول مغربی دنیا میں دائیں باز وکی سیاسی پاپولزم کوئی ایسا وائرس نہیں ہے، جو یکدم کہیں کسی دوسری جگہ سے آ گیا ہو۔ ’’اس وائرس کے پھیلاؤ کی ذمے دار بھی خود مغربی ملکوں کی حکومتیں ہی ہیں۔‘‘
ہیومن وائٹس واچ کے سربراہ کے مطابق، ’’کئی مغربی حکومتی سربراہان بظاہر ایسے رویوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جیسے وہ دائیں بازو کی عوامیت پسندی کے خلاف جنگ ہار چکے ہوں۔ یہ ایک خطرناک غلطی ہے۔‘‘