دنیا بھر کو مجموعی اسلحے کا نصف امریکا اور روس نے فراہم کیا
20 فروری 2017عالمی امن اور تنازعات پر نگاہ رکھنے والے سویڈش تھنک ٹینک سِپری یا انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہےکہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں کو فراہم کیے گئے مجموعی اسلحے کا نصف امریکا اور روس کی جانب سے دیا گیا ہے۔ ہتھیار برآمدکرنے والے ملکوں میں تیسرا نام چین کا ہے۔
اِس رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں ایک سو ملکوں کے نام اسلحے کی بین الاقوامی فروخت میں شامل ہیں۔ ان ایک سو ملکوں کی جانب سے برآمد کیے گئے کُل ہتھیاروں میں امریکی اسلحے کا حجم تینتیس فیصد ہے۔ روس نے اپنے اتحادی یا دوسرے ملکوں کو تیئیس فیصد کے قریب اسلحہ فراہم کیا اور چین کی جانب سے اسلحے کی برآمدات کا حجم 6.2 فیصد ہے۔ سِپری کے مطابق سرد جنگ کے بعد ہتھیاروں کی فروخت میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سِپری کا کہنا ہے براعظم ایشیا میں ہتھیاروں کی درآمد میں سب سے آگے بھارت ہے اور اُس نے سن 2012 سے لے کر سن 2016 کے دوران براعظم ایشیا میں درآمد کیے گئے کُل اسلحے کا تیرہ فیصد خریدا۔ مشرق وسطیٰ میں مختلف مسلح تنازعات کے علاوہ ایران کے ساتھ خلیجی ریاستوں کی مخاصمت کے تناظر میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ملک سعودی عرب ہے۔ اس عرب ملک کی خرید کا تناسب براعظم ایشیا میں ہتھیاروں کی کل درآمدات کا آٹھ فیصد رہا۔
اپنی رپورٹ میں بین الاقوامی تھنک ٹینک نے اندازہ لگایا ہے کہ بھارت نے جتنا اسلحہ درآمد کیا ہے، اس کا اڑسٹھ فیصد روسی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے حاصل کیا گیا ہے۔ یہ تناسب امریکا سے حاصل ہونے والے ہتھیاروں سے پانچ گنا زائد ہے۔ سِپری کے مطابق بھارت کی جانب سے اتنا زیادہ اسلحہ خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے ملک میں معیاری اسلحہ سازی میں ناکام رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب امریکی اسلحے کا اہم خریدا ہے۔ خلیج فارس کی دوسری عرب ریاستیں اپنی ضرورت کا اسلحہ برطانیہ اور اسپین سے خریدتی ہیں۔ چین جہاں ہتھیاروں کو برآمد کرتا ہے وہاں وہ درآمد بھی کرتا ہے۔ الجزائر اور متحدہ عرب امارات بھی اسلحہ خریدنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہیں۔