دنیا بھر کے رہنما ’عالمی ماحولیاتی معاہدے‘ کے لیے کوشاں
30 نومبر 2015پیرس میں جاری بین الاقوامی ماحولیاتی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا تھا کہ فوری طور پر ایک ایسا معاہدہ طے ہونا چاہیے، جس میں تمام ارکان اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہوں۔ ان کے بقول زمینی درجہ حرارت کو محدود کرنا آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے لازمی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تحفظِ ماحول کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں مزید شفافیت کا مطالبہ بھی کیا۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس جلاس میں شریک امریکی صدر باراک اوباما کا اس تناظر میں کہنا تھا، ’’ امریکا اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ ماحولیاتی مسئلہ پیدا کرنے والے ملکوں میں سے ہے لیکن ہم اس ذمہ داری کو بھی قبول کرتے ہیں کہ ہمیں اس بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہے۔‘‘
چینی صدر شی جن پنگ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا بنی نوع انسان کے لیے ایک مشترکہ مشن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے ایک ایسا عالمی اور موثر طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے، جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات کی جائے تو تمام ملکوں کی معاشی حالت کو بھی مد نظر رکھا جانا ضروری ہے۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے صرف بیانات اور نیک تمنائیں کافی نہیں ہیں، ’’ہم اس وقت آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘
ایکواڈور کے صدر رافیل کورئیا کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ’عدالت برائے ماحولیاتی انصاف‘ کا قیام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا قرض نہ دے تو اسے بین الاقوامی عدالتوں کے ذریعے ادائیگی پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن ماحولیاتی قرض کی ادائیگی نہ ہو تو کوئی جرمانہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کی دنیا کسی نہ کسی معاہدے تک پہنچ جائے اور اس مقصد کے لیے وہ درخواست کرتے ہیں کہ مفاہمت اور اتفاق رائے کا راستہ اپنایا جائے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کے مطابق ان کے ملک نے گرین ہاؤس گیسوں کے
اخراج میں نمایاں کمی کی ہے اور ایسا کرنے سے ان کی ترقی بھی متاثر نہیں ہوئی۔ ان کا مطابق پیرس میں ہونے والے کسی بھی ممکنہ معاہدے میں سبھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو شامل ہونا چاہیے اور معاہدے کو قانونی شکل دی جانی چاہیے۔
یوکرائن نے کہا ہے کہ روس مشرقی یوکرائن میں ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ پیرس میں بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران یوکرائن کے صدر پپیٹرو پورو شینکو نے کہا کہ ان کا ملک ہائبرڈ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے، جس سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحولیات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
اس سربراہی اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس بھی شریک ہیں۔ کئی سالوں کے بعد پہلی مرتبہ ان دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کیا ہے۔ کلائمیٹ چینج سمٹ گیارہ دسمبر جاری رہے گا۔