دنیا کے دس فیصد امیر ترین مجموعی CO2 کے نصف کے لیے قصور وار
2 دسمبر 2015یہ جائزہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جاری ایک انتہائی اہم ماحولیاتی کانفرنس میں 195 ممالک سے گئے ہوئے مندوبین زمینی درجہٴ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک حتمی معاہدہ طے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
آکسفیم کے تیار کردہ اس جائزے کے مطابق جہاں دنیا کے دَس فیصد امیر ترین افراد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پچاس فیصد اخراج کے ذمے دار ہیں، وہاں دنیا کی آدھی غریب ترین آبادی کو محض ضرر رساں گیسوں کے محض دَس فیصد کے لیے قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بات چیت اور صلاح و مشورے کا عمل گزشتہ کم از کم پچیس برسوں سے جاری ہے۔ اس سارے عرصے کے دوران ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں میں کمی کی ذمے داری کو بانٹنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ملکوں کی امداد جیسے موضوعات سب سے زیادہ متنازعہ رہے ہیں۔
آکسفیم کے کلائمیٹ چینج سے متعلق پالیسیوں کے سربراہ ٹِم گور نے اپنے ایک بیان میں کہا:’’امیر اور سب سے زیادہ آلودگی کا باعث بننے والے افراد کا احتساب ہونا چاہیے، خواہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا:’’یہ بات بہت جلد بھلا دی جاتی ہے کہ جو ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، دراصل وہی وہ ممالک بھی ہیں، جہاں دنیا کے غریب ترین شہری بستے ہیں، اگرچہ اِن ابھرتے ہوئے ملکوں کو بھی بلاشبہ اپنا مناسب کردار ادا کرنا چاہیے لیکن بنیادی طور پر امیر ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں قائدانہ کردار ادا کریں۔‘‘
آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک فیصد امیر ترین آبادی میں سے ایک شخص جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے لیے ذمے دار ہے، وہ دنیا کی دس فیصد غریب ترین آبادی کے کسی فرد کے مقابلے میں 175 گنا زیادہ بنتی ہے۔
بنیادی طور پر کوئلہ، تیل اور گیس جیسے معدنی ذخائر کے جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں جنم لیتی ہیں۔ ان گیسوں کے اخراج کی ذمے داری بانٹنے کے سوال پر امیر اور غریب ملکوں میں شدید اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔
غریب ملکوں کا موقف ہے کہ امیر مغربی ممالک ایک طویل عرصے سے زمین کے ماحول کو آلودہ کرتے چلے آ رہے ہیں، اس لیے اُنہیں ان گیسوں کے اخراج میں کمی کے سلسلے میں بھی زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ غریب ملک یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر وہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے متبادل توانائیاں اپناتے ہیں تو اس سلسلے میں امیر ملکوں کو اُن کی مدد کرنی چاہیے۔
پیرس میں پیر کو ماحولیاتی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’معاملہ محض تاریخی ذمے داری کا ہی نہیں ہے بلکہ امیر ملکوں کے پاس ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور زیادہ بھرپور کردار ادا کرنے کی گنجائش بھی زیادہ ہے‘۔
دوسری جانب امیر ممالک، جن کی قیادت امریکا کر رہا ہے، اس موقف کو رَد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ ممالک چین اور بھارت کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی جانب سے فی کس نہیں بلکہ حجم کے اعتبار سے کاربن گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں ماحول کو درپیش خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے غریب ملکوں کو رقوم فراہم کرنے کا سوال ہے، امیر ممالک یہ ذمے داری بھی اکیلے اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں۔ اس حوالے سے پیرس کانفرنس میں جرمنی کی نمائندگی کرتے ہوئے کارسٹن زاخ کہتے ہیں، ’’فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کے چوٹی کے پانچ ملکوں میں سے چار ایسے ہیں، جو صنعتی ممالک کے زمرے میں نہیں آتے، جیسے کہ قطر۔‘‘ واضح رہے کہ قطر ضرر رساں گیسوں کے فی کس اخراج کے اعتبار سے بھی چوٹی کے ملکوں میں شامل ہے۔