'دھونی کی کارکردگی سمجھ سے بالاتر‘
1 جولائی 2019کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں بھارت نے انگلینڈ کے خلاف ميچ ميں صحيح طرح مقابلہ کیا ہی نہیں۔ اسی بارے ميں سوشل میڈیا پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔ اس میچ پر خاص نظر پاکستانی شائقین کی بھی تھی کیوں کہ انگلينڈ کی شکست کا مطلب پاکستان کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات مزید مضبوط ہونا تھا۔ کمنٹیٹر اور سابق بھارتی کھلاڑی سنیل گواسکر نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ايک ٹوئیٹ میں لکھا، '' صرف انگلینڈ ہی بھارت کو کامیاب ہونے سے روک سکتا تھا۔ لیکن آخری اوورز میں دھونی کی کارکردگی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
میچ کے دوران برطانوی کمینٹیٹر ناصر حسین کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ دھونی کیوں اتنا سست کھیل رہے ہیں، کم از کم انہیں کوشش تو کرنی چاہیے۔ کرکٹ فینز اسٹیڈیم چھوڑ کر جا رہے ہیں، جس کے جواب میں انڈیا کے سابق کپتان اور کمنٹیٹر ساروو گنگولی نے کہا کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ کچھ کامنٹیٹرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ دھونی ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
پاکستان میں 'فکسڈ میچ‘ ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ بنا ہوا ہے۔ پاکستانی کرکٹ شائقین بھارت کی ٹیم پر یہ میچ جان بوجھ کر ہارنے کا الزام لگا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ صحافی حامد میر نے ایک ٹویٹ میں لکھا، '' کوئی فائدہ نہیں ہوا پاکستانیوں کی طرف سے "جے ہند” کے نعرے لگانے کا۔ بھارتی ٹیم برا کھیل کر انگلینڈ سے ہار گئی، اب پاکستانی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے ليے بھارت کو ووٹ دینے کا فیصلہ تبدیل ہو گا یا نہیں؟‘‘
پاکستان کے سابق کرکٹر وقار یونس نے ٹویٹ میں لکھا، ''جو آپ کرتے ہیں وہی آپ کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان سیمی فائنل میں جاتا ہے یا نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کچھ عالمی چیمپئنز کی اسپورٹس مین شپ کا امتحان ہوا اور وہ برے طرح فیل ہو گئے۔‘‘
اسپورٹس جرنسلٹ فیضان لاکھانی نے لکھا،'' گزشتہ روز انگلینڈ کے خلاف بھارت کی کارکردگی حیران کن تھی۔ ہر کوئی اس پر سوال اٹھا رہا ہے لیکن ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن ہی پر کیوں لائے جب ہمیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑے۔‘'
سوشل میڈیا پر سرگرم ایمان زینب نے ٹویٹ میں لکھا، ''جان بوجھ کر میچ ہارنا غیر مہذب ہے اور اپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف ہے۔ یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ یہ ورلڈ کپ بہت زیادہ سیاسی ہو گیا ہے۔ یہ کھیل کے جذبے کو متاثر کرتا ہے اور ساتھ اس خطے کے حالات کا بھی عکاس ہے۔‘‘