دہلی فسادات: مسلم ممالک کا سخت رد عمل
3 مارچ 2020ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ایران بھارتی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر کی مذمت کرتا ہے۔ ایران صدیوں سے بھارت کا دوست رہا ہے۔ ہم بھارتی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ بھارت کے تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور بے حس شرپسند عناصر کو غالب نہ آنے دیں۔ مستقبل کا راستہ پرامن بات چیت اور اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔‘‘
بھارت نے ایران کے اس بیان پر ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن ماضی میں اس مسئلے پر جب بھی کسی بیرونی ملک کی جانب سے نکتہ چینی کی گئی تو بھارت نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ امریکی پابندیوں کے دباؤ کے پیش نظر بھارت نے ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا ہے لیکن ایرانی بندرگارہ چابہار پر بھارت کے تعاون سےکام جاری ہے۔
اس سے قبل انڈونیشیا نے جکارتہ میں بھارتی سفارت کار کو بلا کر فسادات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا اور مذہبی امور سے متعلق وزارت نے بھی اپنے سخت بیان میں ''مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی تھی۔‘‘
گزشتہ ہفتے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی دہلی کے فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں ''ملک گير سطح پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی دہلی کے فسادات کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے بھارتی مسلمان انتہا پسندی کی طرف مائل ہوں گے جس کے علاقائی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے دہلی کے فسادات کی سخت الفاظ مذمت کی تھی اور اس نے اس کے لیے سخت گیر ہندو تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ او آئی سی نے اپنے بیان میں کہا تھا، ''او آئی سی بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور بھارتی حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے جان و مال کے ساتھ ساتھ ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔‘‘
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 23 فروری کی شام کو فسادات شروع ہوئے تھے جس پر اب قابو پا لیاگيا ہے تاہم متعدد علاقوں میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں۔ ان فسادات میں اب تک کم سے کم 47 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔ تین سو کے قریب افراد اب بھی زخمی ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کو گولی لگی ہے۔
درجنوں دکانیں، مکانات اور کاروباری ادارے جل کر راکھ ہوگئے ہیں جبکہ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ فسادات کے سبب ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں عام لوگوں کی شکایت یہ ہے کہ پولیس نے وقت پر کارروائی نہیں کی ورنہ جان مال کا نقصان اس بڑے پیمانے پر نہیں ہوتا۔
اس وقت ہزاروں متاثرہ افراد جن کا سب کچھ لوٹ لیا گيا اور مکانات جلا دیے گئے وہ سب ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کئی غیر سرکاری تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں جبکہ بہت سے رضاکار ایسے لوگوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے میں لگے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (خبر رساں ادارے)