1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رائن کے کنارے’’ دیوان‘‘ فیسٹیول

2 اکتوبر 2010

گزشتہ دنوں شہرکولون میں ’’رائن کے کنارے دیوان‘‘ نامی ایک میلہ منعقد ہوا ہے۔ یہ فیسٹیول جرمن نشریاتی ادارے ڈبیلو ڈی آر اور کولون کی فلہارمونی کے تعاون سے منعقد کرایا گیا۔ یہ میلہ تین دنوں تک جاری رہا۔

https://p.dw.com/p/PRrT
اس تین روزہ میلے کی سب سے اہم بات چھ کنسرٹس تھےتصویر: DW

مغربی ممالک میں جب بھی سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکا رہا ہوتا ہے تو اسے اچھا موسم کہا جاتا ہے۔ ایسا موسم ویک اینڈ پر ہو توکیا ہی بات ہے اور اگر اس دن کسی تقریب کا اہتمام کیا جانا ہو، تو وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ رائن کے کنارے منائے جانے والے ’دیوان فیسٹیول‘ کے دن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چمکتی ہوئی دھوپ کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اس روز وہاں موجود تھی۔ اس فیسٹیول میں دریائے رائن کے کنارے خیموں کی صورت میں مختلف اسٹالز لگے ہوئے تھے اور انہیں اندر سے دیکھنے کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔

Diwan am Rhein
الجزائر کی موسیقی کے بے تاج بادشاھ، شیب خالد نے بھی دیوان فیسٹیول میں شرکت کیتصویر: DW

ان تمام خیموں میں عرب دنیا کی اشیاء موجود تھیں، مشرقی موسیقی اور اس خطے کی خاص خوشبوؤں نے فضا کو معطرکیا ہوا تھا۔ دیوان فیسٹیول کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں کنسرٹس، بازار، بچوں کے لئے کہانیاں اور ڈرامے پیش کئے جا رہے تھے۔

اس تین روزہ میلے کی سب سے اہم بات چھ کنسرٹس تھے۔ ان میں سے بھی سب سے زیادہ اہم الجزائر کی موسیقی کے بے تاج بادشاھ، شیب خالد کا کنسرٹ تھا۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے خالد کا کہنا تھا کہ وہ پر امید ہیں کہ اس طرح کے پروگرام قوموں اور مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کریں گے’’ اسلام علیکم ایک ایسا لفظ ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں۔ لیکن یہ مفت بھی ہے۔ یہ دنیا کا خوبصورت ترین لفظ ہے۔ جب کوئی جرمن، امریکی یا کوئی یہودی مجھے اس لفظ سے مخاطب کرتا ہے تو میری خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ میں اپنے مسلم اور مسیحی بھائیوں کے ساتھ ساتھ سب کے لئے بھائی چارے اور محبت کی دعا کرتا ہوں‘‘

Diwan am Rhein
اس فیسٹیول میں دریائے رائن کے کنارے خیموں کی صورت میں مختلف اسٹالز لگے ہوئے تھےتصویر: DW

اس میلے میں زیادہ تراسلامی ممالک کے نمائندوں کی موجودگی کی وجہ سے، ایک اسلامی ماحول سا بنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی لگے ہوئے خیمے، عطر کی خوشبو، چوغے پہنے ہوئے مرد، سر ڈھانپے ہوئے خواتین اس ماحول کو مزید روحانی بنا رہے تھے۔ اس حوالے سے کولون کی فلہارمونی کے ڈائریکٹر Louwrens Langevoort کہتے ہیں کہ لوگوں کو بتانا بہت ضروری ہے کہ اسلام امن کی بات کرتا ہے، اس مذہب کے ماننے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو تہوار مناتے ہیں اور جو نفرت کی بات نہیں کرتے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو سراہا کہ جرمن باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے اس میلے میں شرکت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دل کے دروازے پوری دنیا کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

اس میلے میں شریک ایک جرمن باشندےمشائیل نے کہا ’’ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں رواداری پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں خاص طور پر مذاہب کے حوالے سے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘‘۔ اس فیسٹیول میں مختلف قسم کے پروگرام، کنسرٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی فلمیں اور جنوں اور پریوں کی کہانیاں بھی سنوائیں گئیں۔ شرکاء کی بھوک اور پیاس مٹانے کے لئے عرب ممالک، ایران اور ترکی سے آئے ہوئے خاص کھانے پیش کئے گئے۔

اس سے قبل2007 ء میں بھی کولون میں اسی طرز کا ایک میلہ منعقد کیا گیا تھا لیکن ایک دوسرے نام سے۔ تاہم ان دونوں میلوں کا مقصد اور پیغام ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ جرمنی میں آباد مختلف ثقافتوں کے افراد مل کر ایک دوسرے کو سمجھیں اوراس سے محظوظ ہوں۔ عراقی موسیقارعدنان شنان بھی دیوان فیسٹول میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے میلوں کے ذریعے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جا سکتی ہے۔

Diwan am Rhein
دیوان فیسٹیول کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس میں کنسرٹس، بازار، بچوں کے لئے کہانیاں اور ڈرامے پیش کئے جا رہے تھےتصویر: DW

اس کے علاوہ ترکی سے برہان اوچل اور نیو یارک سے ترک نژاد گلوکارالہان ارشاہن نے بھی دیوان فیسٹیول میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ مختلف ثقافتوں کے رنگوں سے بھرپور اس فیسٹیول کے منتظمیں کا کہنا تھا کہ شرکاء دنیا کے مختلف خطوں کی موسیقی، کھانوں اور دیگر روایتی اشیاء سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔ رات گئے تک مختلف رنگوں سے سجے سجائے خیموں میں جاری رقص و موسیقی کی محفلوں سے تالیاں بجانے اور شور شرابے کی آوازیں آتی رہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: کشور مصطفی