’رات تاریک ہے، مگر ہمت نہیں ہارا‘ پاکستانی مسیحی کو پھانسی
10 جون 2015مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے آفتاب بہادر مسیح کے وکلاء کا کہنا ہے کہ آفتاب کو تشدد اور اذیت کا نشانہ بنا کر اُس سے اعترافِ جُرم کروایا گیا تھا۔ آفتاب بہادر مسیح کے کیس نے انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں سے لے کر اقوام متحدہ تک میں تشویش پیدا کردی ہے۔
پاکستانی کے مشرقی شہر لاہور کی جیل کے ایک اہلکار کے بیان کے مطابق آفتاب بہادر کو بُدھ کی صبح ساڑھے چار بجے پھانسی دے دی گئی۔ جیل کے اس اہلکار کو میڈیا کو بیان دینے کی اجازت نہیں ہے اس لیے اُس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا تاہم اُس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ آفتاب بہادر پھانسی کی سزا پانے سے پہلے تک ’چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ بے گُناہ ہے‘۔
آفتاب بہادر کے برتھ سرٹیفیکیٹ یا سند پیدائش اور شناختی کارڈ پر اُس کی پیدائش کی تاریخ 30 جون 1977ء درج ہے اور اسے حکام نے متنازعہ قرار نہیں دیا ہے۔
اُدھر ہیومن رائٹس گروپ ’ ریپریو‘ نے کہا ہے کہ بہادر کے مقدمے میں جن دو گواہوں کے بیان کو بنیاد بنا کر اُسے سزائے موت دی گئی، وہ دونوں گواہان بعد میں اپنے بیان سے مُکر گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ان سے یہ بیان زبردستی اور اذیت رسانی کے ذریعے دلوایا گیا تھا۔
آفتاب بہادر کو جس وقت موت کی سزا سنائی گئی تھی، تب کسی 15 سالہ مجرم کو قانونی طور پر یہ سزا دی جا سکتی تھی تاہم پاکستان میں 2000ء میں سزائے موت سنانے کے لیے کم از کم عمر 18 برس کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ زور زبردستی اور اذیت دے کر کسی سے اقرار جرم کروانا بھی قابل قبول عمل نہیں ہے۔
اُدھر ہیومن رائٹس گروپ ’ریپریو‘ نے آفتاب بہادر کو موت کی سزا دیے جانے کے عمل کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی اور پاکستانی دونوں قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پھانسی کی سزاؤں پر عائد غیر اعلانیہ پابندی دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے ایک حملے کے بعد ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔ پشاور کے اس سانحے میں 134 بچے اور 19 بالغ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس واقعے کے بعد حکومت پر غیر معمولی دباؤ تھا کہ وہ مسلم انتہا پسندی کے رجحان میں اضافے کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔
بہادر کی پھانسی سے ایک روز قبل اُس کا جیل میں تحریر کردہ ایک خط شائع ہوا تھا، جس میں اُس نے اپنی بے گناہی کے دعوے کو دہرایا تھا۔ آفتاب بہادر نے اپنے اس خط میں لکھا تھا،’’ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بے گناہی کے دعووں سے کوئی فرق پڑے گا تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگرچہ رات بہت تاریک ہے، بہتر ہوتا کہ میں اس بارے میں سوچتا بھی نہیں کہ پولیس نے مجھ سے ناجائز اقرار جُرم کروانے کے لیے میرے ساتھ کیا کُچھ کیا ہے‘‘۔
منگل کو سزائے موت کے ایک اور قیدی شفقت حسین کی پھانسی عملدرآمد سے چند گھنٹے پہلے چوتھی بار ملتوی کر دی گئی۔ شفقت حسین نامی مجرم کو کراچی میں اغوا اور قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم اس کے وکلاء کا کہنا ہے کہ 2004ء میں جب شفقت کو عدالت کی جانب سے سزائے موت دی گئی تھی اس وقت اُس کی عمر 13 برس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔
ابتدائی طور پر صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر عمل درآمد شروع ہوا تھا تاہم بعدازاں اس حکم کو تمام مقدمات میں یہ سزا پانے والوں پر لاگو کر دیا گیا۔