رانا پلازہ کے سانحے کے دو برس بعد کیا تبدیل ہوا ؟
22 اپریل 2015ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ڈھاکہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مزدروں کے تحفظ کی کوششوں میں ناکام ہو رہی ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کے ایشیائی دفتر کے سربراہ نے یہ خصوصی رپورٹ رانا پلازہ کے انہدام کے دو برس مکمل ہونے پر جاری کی ہے۔ اِس پلازہ کے منہدم ہونے کے نتیجے میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ دو برس بعد بھی بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹریوں کے کام کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے نگران ادارے کے ایشیائی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کے بقول حکومت بالخصوص گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈھاکہ حکومت اور بین الاقوامی ریٹیلرز پر زور دیا ہے کہ وہ فیکٹری مالکان پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ اٹھہتر صفحات کی پر مبنی اس رپورٹ میں 160 مزدوروں کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ تمام مزدوروں نے اپنے انٹرویوز نام مخفی رکھتے ہوئے ریکارڈ کروائے تھے۔
اس رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں میں مزدوروں کو بعض اوقات تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مالکان اُن کی بےعزتی سے گریز نہیں کرتے اور انہیں زیادہ کام کروانے کے لیے ڈرانے دھمکانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خواتین ملازمین کو جنسی جبر کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور اُن کے نگران یا مینیجر مرد ہیں۔ ان خواتین اور دوسرے ورکرز کو زبردستی اضافی کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماہانہ تنخراہ دیتے ہوئے ایک مخصوص رقم روک لینے کا رویہ بھی فیکٹری مالکان میں پایا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں اندازوں کے مطابق پانچ ہزار گارمنٹ فیکٹریاں ہیں۔ ان فیکٹریوں میں چار ملین افراد ملازم ہیں۔ اِن فیکٹریوں میں تیار ہونے والے گارمنٹس کی ایکسپورٹ سے ملکی خزانے میں سالانہ بنیاد پر بیس بلین ڈالر سے زائد غیر ملکی زرمبادلہ جمع ہوتا ہے۔ یہ اربوں ڈالر بنگلہ دیش کی اقتصادیات کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ہے۔
اِن گارمنٹ فیکٹریوں کے تیار کردہ لباس امریکا اور یورپ کی لباس تیار کرنے والی مشہور فیشن ایبل کمپنیاں عام مارکیٹ میں پیش کرتی ہیں۔ اِس وقت بنگلہ دیش کے ملازمین اِس کوشش میں ہیں کہ وہ ایک متحدہ یونین تشکیل دے کر تمام ملازمین کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد شروع کریں لیکن اِس کی تشکیل میں انہیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ پانچ ہزار فیکٹریوں میں صرف دس فیصد میں مزدور یونینز موجود ہیں۔