رانا پلازہ کے ملبے میں ’لو اسٹوری‘ دفن نہ ہو سکی
6 ستمبر 2015رانا پلازہ کے منہدم ہونے کے نتیجے میں گیارہ سو افراد لقمہٴ اجل بن گئے تھے۔ اس سانحے پر بنائی گئی فلم پر ایسے تحفظات کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ اس سے ملک بھر کی گارمنٹس فیکٹریوں کی منفی انداز میں عکاسی ہو سکتی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے اتوار کے دن اس فلم کی نمائش پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اٹارنی جنرل محب عالم کے حوالے سے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس کے سنہا کی سرپرستی میں ججوں کے ایک بینچ نے عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے پہلے فیصلے کو واپس لیتے ہوئے فلم ’رانا پلازہ‘ کی نمائش کی اجازت دے دی ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر نظام الاسلام خان نے عدالت کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہ ’رانا پلازہ‘ کی نمائش کے لیے نئی تاریخوں کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔ ملکی سینسر بورڈ کی طرف سے جولائی میں اجازت مل جانے کے بعد 137 منٹ طویل اس فلم کی نمائش چار ستمبر کو ہونا تھی۔ اس فلم کو ملک بھر کے سو سے زائد سنیما گھروں میں دکھانے کی تیاری کی گئی تھی۔ تاہم پابندی کے بعد یہ تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔
اس فلم کی کہانی ایک ایسی انیس سالہ لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو رانا پلازہ کے منہدم ہونے کے نتیجے میں ملبے میں دب گئی تھی۔ ریشماں اختر نامی اس لڑکی کو اس حادثے کے سترہ دنوں بعد ملبے سے زندہ نکالا گیا تھا۔ گردوغبار سے اٹی اس لڑکی کی تصاویر ملک بھر کے اخبارات کے علاوہ عالمی روزناموں میں بھی شائع ہوئی تھیں۔
ریشماں اب اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شادی کر چکی ہے جبکہ اسے ایک ہوٹل میں اچھی ملازمت بھی مل چکی ہے۔ ڈائریکٹر نظام الاسلام خان کے مطابق ’رانا پلازہ‘ نامی فلم دراصل ریشماں کی محبت کی کہانی پر بنائی گئی ہے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس فلم میں بنگلہ دیش بھر کی گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والی لاکھوں خواتین ورکرز کی صورتحال پر آگاہی بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔