روسی خواتین قیدیوں کا مبینہ تشدد، جیل وارڈن ہلاک
8 اکتوبر 2019گڈانی میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار شعیب بلوچ کے بقول زویا نامی خاتون وارڈن کو جیل میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ خواتین قیدیوں کی بیرک میں ڈیوٹی پر تعینات تھی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''دیکھیں یہ ایک بہت اہم واقعہ ہے جو گڈانی جیسے حساس جیل میں پیش آیا ہے۔ جیل سے تمام شواہد اکھٹے کر لیے گئے ہیں۔ زویا نامی 23 سالہ وارڈن لسبیلہ کی ہی رہائشی تھیں۔ دستیاب شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ ایک حساس مقدمے میں زیر حراست تین روسی خواتین قیدیوں نے مذکورہ وارڈن کو مبینہ طور پر قتل کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ عینی شاہدین کے بقول جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا تینوں غیر ملکی قیدی ایک ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیل وارڈن زویا پر پہلے کسی آہنی چیز سے حملہ کیا گیا، جس سے وہ بے ہوش ہوئیں اور بعد میں انہیں مزید تشدد کر کے قتل کیا گیا۔
گڈانی جیل کا شمار پاکستان کے ان حساس ترین جیلوں میں کیا جاتا ہے، جہاں دہشت گردی، جاسوسی اور دیگر اہم ترین مقدمات میں نامزد قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ بلوچستان کے جنوبی حصے میں بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع گڈانی صوبہ سندھ کے کثیر آبادی والے شہر کراچی سے تقریباً ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔
شعیب بلوچ نے ڈی ڈبیلو کو مزید بتایا کہ تحقیقات کے دوران اس واقعے کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے، "یہ ایک پر اسرار قتل ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روسی خواتین قیدیوں نے جیل وارڈن کو کسی اہم مقصد کے تحت قتل کیا ہے۔ یہ گڈانی جیل میں خواتین کی بیرک میں سکیورٹی حصار توڑنے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اس واقعے کے بعد جیل کے اندر دیگر قیدیوں سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔‘‘
گڈانی جیل میں تعینات ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لیڈی وارڈن کے قتل کے بعد جیل میں سکیورٹی پر تعینات متعلقہ اہلکاروں کے خلاف اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔انہوں نے مزید کہا،''گڈانی جیل میں پیش آنے والا یہ واقعہ ایک غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ یہاں دیگر غیر ملکی قیدیوں کو بھی رکھا گیا ہے۔ مبینہ حملے میں ملوث تینوں روسی قیدیوں سے اس وقت تحقیقات کی جار ہی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا،'' ہماری کوشش ہے کہ قتل کے اصل محرکات کو سامنے لایا جا سکے۔ ہمیں شبہ ہے کہ شاید ان تینوں غیر ملکی قیدیوں نے جیل سے فرار ہونے کے لیے کسی منظم منصوبہ بندی کے تحت لیڈی وارڈن کو قتل کیا ہے۔ ممکن ہے اس حملے میں ملوث خواتین کو جیل کے دیگر بیرکس سے بھی معاونت حاصل ہو۔ اس واقعے سے بعض سکیورٹی اہلکاروں کی غفلت کی بھی واضح نشاندہی ہوئی ہے۔‘‘
جیل اہلکار نے بتایا کہ روسی خواتین قیدیوں کو سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران گرفتار کر کے یہاں منتقل کیا گیا تھا،''اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے مقدمات میں زیر حراست ملزمان نے یہاں سے فرار ہونے کی کئی کوششیں کی ہیں، جن میں وہ ناکام رہے ہیں۔ ماضی میں یہاں سے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بعض قیدیوں کو ملک کے دیگر جیلوں میں بھی منتقل کیا جا چکا ہے۔ گڈانی جیل کے اندر سکیورٹی کا ایک جامع نظام موجود ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جلد ہی اس واقعے کی اصل محرکات بھی سامنے آ جائیں گی۔ جیل کے اندر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے بھی واقعے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے گڈانی جیل کے اس واقعے کے بعد اعلیٰ سطحی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ کوئٹہ میں جاری ایک بیان میں انہوں نے اس واقعے کو متعلقہ سکیورٹی اہلکاروں کی غفلت سے تعبیر کیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ لیڈی وارڈن کے قتل کے حوالے سے جن جن اہلکاروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
بلوچستان کے کئی علاقے افغانستان اور ایران کی سرحد پر واقع ہیں۔ یہاں سے غیر ملکیوں کی غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لیے پاکستان کی جانب سے سرحد پر خاردار تارکی تنصیب کا عمل تاحال جاری ہے۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران درجنوں غیر ملکی شہریوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ گڈانی جیل کے علاوہ کوئٹہ کے ہدہ جیل میں بھی کئی غیر ملکی قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔