1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا بحران کے خاتمے کا آخری موقع، گوٹیرش کی سوچی کو تنبیہ

مقبول ملک ڈی پی اے
17 ستمبر 2017

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق میانمار کی رہنما سوچی کے پاس روہنگیا بحران کے خاتمے کا بس ایک آخری موقع بچا ہے۔ اب تک چار لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین اپنی جانیں بچانے کے لیے بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2k8Qy
تصویر: DW/M.M. Rahman

جرمن دارالحکومت برلن اور آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے اتوار سترہ ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں آج کہا کہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں اگست کے اواخر میں شروع ہونے والی تازہ ترین خونریزی کے دوران اب تک ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو جانے والے روہنگیا باشندوں کی تعداد چار لاکھ دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ابھی ایسے ہزاروں نئے مہاجرین روزانہ بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔

Schweiz | UN-Zypern-Konferenz endet ohne Ergebnis verkündet UN-Generalsekretär Guterres
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اںٹونیو گوٹیرشتصویر: picture alliance/KEYSTONE/S. Di Nolfi

روہنگیا مسلمانوں کا میانمار سے کوئی تعلق نہیں، جنرل لینگ

راکھین میں صورتحال کو قابو میں لایا جائے، عالمی سلامتی کونسل

روہنگیا عسکریت پسندوں کا دہشت گرد تنظیموں سے روابط سے انکار

انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ میانمار میں حکمران جماعت کی سیاسی رہنما راکھین میں جاری روہنگیا بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں نوبل امن انعام یافتہ خاتون رہنما آنگ سان سوچی کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ  وہ ایسے تمام اقدامات کریں، جن کی مدد سے اس بحران کو ختم کیا جا سکے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہ اعتراف بھی کیا کہ میانمار میں فوج کو، جو عشروں تک اس ملک میں اقتدار میں رہی ہے، ابھی تک ملکی سیاست پر غلبہ حاصل ہے۔ تاہم  انہوں نے کہا کہ اس وقت راکھین میں جو صورت حال پائی جاتی ہے، اگر اس کا رخ نہ بدلا گیا تو مستقبل میں ’’یہی المیہ انتہائی ہولناک ثابت ہو گا۔‘‘

Myanmar - Aung San Suu Kyi
میانمار میں حکمران جماعت کی رہنما آنگ سان سوچیتصویر: Reuters/J. Silva

میانمار: کیا راکھین کا مسلم علاقہ جہادیوں کا نیا گڑھ بن جائے گا؟

میانمار اپنا مسئلہ خود حل کرے، شیخ حسینہ واجد

’روہنگیا اقلیت کی نسل کشی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘

راکھین میں اگست کے آخری ہفتے کے آغاز پر ملکی فوج کی متعدد چیک پوسٹوں پر مبینہ طور پر راکھین کے روہنگیا عسکریت پسندوں نے 12 سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کا سبب بننے والے بیک وقت جو کئی مربوط حملے کیے تھے، ان کے بعد وہاں فوج نے اپنی کارروائیوں کا آغا زکر دیا تھا۔ اس طرح ایک بار پھر خونریزی کی ایک نئی لہر شروع ہو جانے کے نتیجے میں اب تک وہاں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بہت بڑی اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی۔ میانمار کی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے جن قریب 400 افراد کو ہلاک کیا، وہ روہنگیا عسکریت پسند تھے۔ اس کے علاوہ اسی بدامنی کے دوران وہاں سینکڑوں گھر بھی جلا دیے گئے۔

انٹونیو گوٹیرش نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ عالمی ادارے کی کئی ذیلی امدادی ایجنسیاں بنگلہ دیش میں نئے آنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں  اور ساتھ ہی ان مہاجرین میں نئی بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کے امکانات کا سدباب بھی کیا جا رہا ہے۔

Infografik Rohingya Bevölkerung ENG
مختلف ممالک میں روہنگیا مسلم آبادی سے متعلق اندازے

روہنگیا کی اپنے گھروں کو خود جلانے کی تصاویر جعلی نکلیں

بدھا ہوتے تو روہنگیا کی مدد کر رہے ہوتے، دلائی لامہ

پاکستان میں لاکھوں روہنگیا میانمار کے حالات پر تشویش کا شکار

اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے جنیوا میں اعلان کیا کہ بنگلہ دیش پہنچنے والے نئے روہنگیا مہاجرین میں سے 60 فیصد بچے ہیں، جنہیں مختلف وبائی امراض سے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ میانمار کے اندر موجود قریب ڈیڑھ لاکھ روہنگیا مہاجر بچوں کو بھی خسرے اور پولیو جیسی بیماریوں سے بچانے کے لیے ان کی ویکسینیشن کی جائے گی۔

بنگلہ دیش میں یہ لاکھون نئے روہنگیا مہاجرین زیادہ تر راکھین کے ساتھ سرحد پر واقع بنگلہ دیشی ضلع کوکس بازار میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں یونیسیف، عالمی ادارہ صحت اور ڈھاکا حکومت مل کر یہ کاوشیں بھی کر رہے ہیں کہ ان لاکھوں انسانوں کے لیے حفظان صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے۔

نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جو سالانہ اجلاس منگل انیس ستمبر سے شروع ہو رہا ہے، اس میں بھی روہنگیا بحران اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہو گا۔

بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟