ریکس ٹلرسن امریکا کے نئے وزیر خارجہ، بڑے چیلنجز درپیش
2 فروری 2017امریکی سینیٹ کی جانب سے، جہاں ری پبلکن ارکان کو اکثریت حاصل ہے، ٹلرسن کی بطور وزیر خارجہ ثوثیق بدھ یکم فروی کو کی گئی، جس کے فوراً بعد اُنہوں نے اوول آفس میں اپنے عہدے کا حلف بھی اُٹھا لیا۔ اس موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے: ’’آپ ہمارے سفارت کاروں کے اور دفترِ خارجہ کے اُس مشن سے اچھی طرح سے آگاہ ہیں، جس کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مفادات کے تحفظ اور اس ملک کو زیادہ محفوظ اور زیادہ خوشحال بنانے سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس انتہائی ہنگامہ خیز دور میں امن و استحکام کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
سینیٹ کے ڈیموکریٹ ارکان نے ٹلرسن کی تقرری پر خاصا شور مچایا اور کہا کہ توانائی سے متعلق ایک بڑے ادارے میں اُن کے چار عشروں پر محیط کیریئر کے باعث خدشہ یہ ہے کہ وہ دنیا کو ایک کاروباری منتظم کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ واضح رہے کہ ریکس ٹلرسن تیل کا کاروبار کرنے والے ادارے ایکسون موبیل کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو رہ چکے ہیں۔ ڈیموکریٹس نے کہا، اُنہیں اس بات کا بھی یقین نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو غلط سمجھنے کی صورت میں ٹلرسن اُن کے خلاف مزاحمت بھی کریں گے۔ بالآخر ڈیموکریٹس کی ساری کوششیں ناکام رہیں اور امریکا کے اُنہترویں وزیر خارجہ کے طور پر سینیٹ میں ٹلرسن کے نام کی تینتالیس کے مقابلے میں چھپن ووٹوں سے توثیق کر دی گئی۔
سینیٹ کے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ڈیموکریٹس کی تمام تر شکایات رَد کرتے ہوئے کہا کہ ٹلرسن اِس عہدے پر کام کرنے کے پوری طرح سے اہل ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق وزیر خارجہ کے طور پر ریکس ٹلرسن کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے کیے گئے اُن اقدامات کے سبب انتہائی سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جن کی مسلم اقوام، امریکا کے یورپی حلیف، میکسیکو اور خود امریکی بیوروکریٹس بھی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
ریکس ٹلرسن نے ایک ایسے وقت پر وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا ہے، جب شام میں خانہ جنگی بدستور جاری ہے، ایٹمی طاقت کا حامل شمالی کوریا ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے اور امریکا کو ایک مسلسل اُبھرتے ہوئے چین اور عالمی منظر نامے پر زیادہ سے زیادہ جارحانہ انداز اپناتے روس کا سامنا ہے۔
سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹر باب کورکر نے ٹلرسن کے تجربے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھتر ہزار ملازمین کے حامل ایک عالمی ادارے کے سربراہ رہے ہیں اور اس دوران اُن کے عالمی رہنماؤں سے بھی ’گہرے تعلقات‘ رہے ہیں۔
انہی رہنماؤں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی شامل ہیں، جنہیں ٹِلرسن کا ایک ’قریبی دوست‘ کہا جاتا ہے۔ ناقدین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس ’قربت‘ کے باعث ٹلرسن شاید تب کوئی زیادہ جارحانہ انداز نہیں اپنا سکیں گے، جب روس امریکی مفادات کے خلاف کارروائی کرے گا۔ واضح رہے کہ ریکس ٹلرسن کو 2013ء میں روس کے اعلیٰ اعزاز ’آرڈر آف فرینڈ شپ‘ سے نوازا گیا تھا۔
نئے امریکی وزیر خارجہ کے طور پر ٹلرسن کی پہلی ملاقات اپنے نئے جرمن ہم منصب زیگمار گابریئل سے ہو گی، جنہوں نے بدھ یکم فروری کی شام امریکا روانگی سے پہلے کہا کہ وہ دوستی کا پیغام لے کر واشنگٹن جا رہے ہیں: ’’ہم اپنے امریکی ساتھیوں پر اپنا موقف، اپنے مفادات اور اپنی اَقدار واضح کرنا چاہتے ہیں اور ایک اچھی، کھلی اور دوستانہ مکالمت کے خواہاں ہیں۔‘‘