زمانہ بدل گیا، رواج نہیں بدلے
15 جون 2011جنوبی ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ میناکشی گنگولی کا کہنا تھا، ’’یہ سچ ہے کہ جنوبی ایشیا میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جنسی تناسب بگڑتا جا رہا ہے۔‘‘
گنگولی کا مزید کہنا تھا، ’’ گھریلو اور جنسی تشدد اب بھی جنوبی ایشائی خواتین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خواتین کو کم تر تصور کرنا اس خطے کے کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔‘‘
گنگولی کا اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی مختاراں مائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ صدیوں پرانے رواج ابھی بھی جاری ہیں۔ مختاراں مائی کو 2002 میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا میں رونما ہوتے ہیں۔ شورش زدہ افغانستان میں عائشہ بی بی کا ناک اور کان کاٹ دیا گیا تھا۔ عائشہ بی بی اپنے شوہر کی بد سلوکی سے تنگ آ کر ان سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی تھیں۔ اسی طرح بنگلہ دیشی خاتون نورالنہار کے گھر پر حملہ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا تھا۔ اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے ایک شخص کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تھوماس روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک نیوز سروس TrustLaw کے سروے کے مطابق بھارت، افغانستان اور پاکستان خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ممالک میں شامل ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں خواتین کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بہتری بھی آ رہی ہے۔
ان تمام واقعات کے باوجود اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس خطے کی خواتین اعلیٰ سیاسی اور انتظامی عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ اسی حوالے سے سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی بہو سونیا گاندھی اب اس سیاسی پارٹی کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ بھی ملکی وزیراعظم بن چکی ہیں۔ سن 1960 میں بننے والی دنیا کی پہلی وزیر اعظم خاتون Sirimavo Bandaranaike کا تعلق بھی جنوبی ایشائی ملک سری لنکا سے ہی ہے۔ ماہرین کے خیال میں ان تمام تر حقائق کے باوجود اس خطے کی زیادہ تر خواتین کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور غریب خواتین کی بہتری کے لیے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے گئے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے ایشیائی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف بیٹوں کی خواہش چھوڑ دیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں خواتین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’جنس کی بنیاد پر بچوں کا انتخاب کرنا نہ صرف تعصب کی ثقافت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اسے فروغ بھی دیتا ہے۔ معاشروں اور حکومتوں کو خواتین کے حقوق کے مسائل کے حل لے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں۔‘‘ اقوام متحدہ کے مطابق ایشیائی ممالک میں بعض اوقات لڑکا پیدا ہونے پر خواتین کو طلاق بھی دے دی جاتی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: افسر اعوان