زنا کا الزام: طالبان کے ہاتھوں خاتون کو سزائے موت
9 اگست 2010بدغیس میں عبدالجبار نامی ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ طالبان کی طرف سے مبینہ طور پر زنا کے الزام میں یہ سزا ایک ایسی 48 سالہ بیوہ خاتون کو دی گئی، جس کا ساتھی مرد طالبان کے بقول فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
طالبان شدت پسندوں نے اس خاتون کو بدغیس کے ایک دور افتادہ ضلع قادیس میں ایک بڑے ہجوم کے سامنے گولی ماری۔ عبدالجبار نامی پولیس افسر کے بقول اس خاتون کو گولی مارنے سے قبل اسے کئی درجن کوڑے بھی مارے گئے اور یہ واقعہ اتوار کے روز پیش آیا۔
اس سزائے موت پر عمل درآمد کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا تاہم نہ تو کسی نے اس خاتون کے قتل کو رکوانے کی کوشش کی اور نہ ہی بعد ازاں صوبائی حکومت کو اس کی کوئی اطلاع دی۔ بدغیس سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق صوبائی پولیس کو اس کی اطلاع بعد میں اپنے ذرائع سے ملی، جس کی بعد چھان بین شروع کر دی گئی۔
افغانستان میں سال 1996 سے لے کر 2001 تک طالبان کے دور اقتدار میں ملک میں بہت سے ایسے مردوں اور خواتین کو کوڑے مارنے کے علاوہ یا تو سنگسار کر دیا جاتا تھا یا پھر گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا تھا، جن پر یہ الزام ہوتا تھا کہ وہ زنا کے مرتکب ہوئے تھے۔
اتوار کے روز قادیس میں مبینہ طور پر زنا کی مرتکب ایک مقامی خاتون کو دی جانے والے موت کی سزا کے بارے میں طالبان کے ایک ترجمان نے کہا کہ اسے ایسے کسی واقعے کا کوئی علم نہیں ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے اس بات پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ بدغیس میں بہت سے مقامی افراد اور صوبائی پولیس کی طرف سے طالبان ہی کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کی تصدیق کی جا رہی ہے۔
اگر اس واقعے کی حتمی تصدیق ہو گئی تو یہ افغانستان میں طالبان دور اقتدار کے خاتمے کے بعد سے آج تک کا کسی خاتون کو سزائے موت دینے کا محض دوسرا واقعہ ہو گا۔ اس واقعے سے قبل گزشتہ نو برسوں میں طالبان نے آج تک جس ایک خاتون کو موت کی سزا سنائی تھی، اس پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر غیر ملکی فوجی دستوں کے لئے طالبان کی جاسوسی میں ملوث تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان