سابق امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ چل بسے
1 جولائی 2021رمزفیلڈ کے اہل خانہ نے ان کی وفات کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا،”ہم انتہائی افسوس کے ساتھ یہ خبر دے رہے ہیں کہ ڈونلڈ رمزفیلڈ نہیں رہے۔ وہ ایک امریکی مدبر اوراچھے شوہر، والد، دادا اور پردادا تھے۔ ان کی عمر 88 برس تھی۔ نیومیکسیکو کے تاوس میں جس وقت انہوں نے آخری سانس لی، ان کا کنبہ ان کے پاس موجود تھا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تاریخ انہیں چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک عوامی خدمات میں ان کی شاندار کارکردگی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انہوں نے اپنی زندگی ملک کے لیے وقف کردی تھی۔
وزیر دفاع کے طورپر رمزفیلڈ نے کیا کیا؟
رمزفیلڈ دو مرتبہ امریکی وزیر دفاع کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پہلی مرتبہ 1975 سے 1977 کے درمیان جیرالڈ فورڈ کے دور صدارت میں اور دوسری مرتبہ جنگ عراق کے بعد اتھل پتھل کے درمیان اپنے عہدے سے استعفی دینے سے قبل سن 2001 سے سن 2006 تک جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں وزیر دفاع بنائے گئے۔
صدر فورڈ کے دور میں جب وہ وزیر دفاع بنائے گئے تو ان کی عمر صرف 43 برس تھی اور اس عہدے پر فائزہونے والے سب سے کم عمر کے امریکی تھے۔ دوسری مرتبہ جب انہوں نے پنٹاگون کی سربراہی سنبھالی تو ان کی عمر 74 برس تھی اور اس عہدے پر فائز ہونے والے سب سے عمر رسیدہ شخص تھے۔
انہوں نے فوجی بیوروکریسی کو ختم کرنے اور اسے زیادہ سہل اورچست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں انہیں بیرون ملک طویل اور مہنگی فوجی مداخلت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی پڑی۔
رمزفیلڈ بش انتظامیہ کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے زبردست علمبردار تھے۔ انہی کے دور میں افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ اور انہوں نے مشتبہ انتہا پسندوں کو کسی الزام کے بغیر گرفتار کرکے گوانتاناموبے میں قید کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔
حالانکہ گوانتاناموبے میں قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کے واقعات کے سبب رمز فیلڈ کو کڑی تنقید کا نشانہ کرنا پڑا۔
سن 2002 میں انہوں نے اپنی توجہ عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کو معزول کرنے پر مرکوز کی اور اس کے لیے امریکا کی قیادت میں برطانیہ، اسپین اور پرتگال جیسے چند اتحادیوں کو لے کر مبینہ 'خواہش مندوں کا اتحاد" قائم کیا۔
ان کا اس بات پر اصرار تھا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں جو کہ عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ تاہم اس طرح کے ہتھیار کبھی بھی نہیں ملے۔
رمزفیلڈ کی ابتدائی زندگی
رمز فیلڈ 1932میں شکاگو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور 1954سے 1957کے دوران امریکی بحریہ میں خدمات انجام دیں۔ بعد میں وہ کیپٹل ہل کے اسٹاف بن گئے اور پھر ایک انوسٹمنٹ بینکر کے طور پر کام کیا۔
رمزفیلڈ سن 1960میں 30برس کی عمر میں ریپبلیکن امیدوار کے طور پر الینویس سے امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہوئے۔ وہ 1964، 1966او ر 1968میں بھی امریکی کانگریس کے لیے منتخب ہوئے۔
1975میں انہوں نے پہلی مرتبہ صدر جیرالڈ فورڈ کی انتظامیہ میں وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں ملک کے اعلی ترین سویلین ایوارڈ پریزیڈنٹ میڈل آف فریڈم سے نوازا گیا۔
عراق جنگ پر کوئی پچھتاوا نہیں: رمزفیلڈ
رمزفیلڈ تجارت کرنے کے لیے 1977میں سیاست سے الگ ہوگئے۔ انہوں نے فارماسیوٹیکل اور ٹیکنالوجی انڈسٹری میں کامیاب تاجرکے طورپر نام کمایا۔
پرائیوٹ سیکٹر میں 23 برس تک کام کرنے کے بعد رمز فیلڈ ایک بار پھر اپنے سابقہ عہدے پر واپس لوٹے اور اس مرتبہ بش انتظامیہ میں وزیر دفاع بنائے گئے۔ انہوں نے جنوری 2001میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔
رمزفیلڈ کی وفات پر اہم شخصیات کا ردعمل
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے رمز فیلڈ کو ”مسلح افواج کا ایماندار نگہبان" قرار دیا۔
ریپبلیکن سینیٹر مٹ رومنی نے رمزفیلڈ کو ایک ”حقیقی عوامی خدمت گار" قرار دیا اور کہا کہ ان کی ”مضبوط قیادت کی وجہ سے ہمار ے ملک کو مشکل حالات سے باہر نکالنے میں مدد ملی۔“
بش سینیئر ’ضدی کمینے‘ چینی اور ’نک چڑھے‘ رمزفیلڈ پر برس پڑے
ریپبلیکن سنیٹر ٹیڈ کروز نے رمز فیلڈ کو”ایک امریکی ہیرو" قرا ردیا۔
تاہم بعض حلقوں نے رمزفیلڈ کی نکتہ چینی بھی کی۔ بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے امریکی جریدے 'جیکوبن‘ نے رمز فیلڈ کو ”جنگی مجرم“ قرار دیا۔
بھارتی مورخ وجے پرشاد نے کہا کہ رمزفیلڈ نے ”عراق کی تباہی میں حصہ لیا۔"
بائیں بازو کے مبصر سینک ایگور نے رمزفیلڈ کو ''جنگ پھیلانے والا بے رحم" شخص قرار دیا جو ”ہزاروں بے گناہ عراقیوں“ کی موت کے لیے ذمہ دار تھا۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)