سری لنکا میں چین کی دلچسپی، بھارت کو تشویش
17 اگست 2010چین کے اس تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سری لنکا کے صدر مہندا راجا پاکسے نےکہا کہ' ہمارا ملک چین اور جنوبی یورپ کے راستے میں تھا اور اس قدیم شاہراہ ریشم پر بنے والی بندرگاہ نے ہمیں اپنی راویتی دوستی کی یاد دلادی۔ میں اس موقع پر بیجنگ حکومت کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔'
دوسری طرف چین کی سری لنکا میں اس دلچسپی پر بھارت میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔بھارت میں سلامتی اُمور کے کئی ماہرین نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ اس بندرگاہ میں شراکت چین کی 'اسٹرنگس آف پرل' حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ بحیرہ ہند پر بندرگاہوں کا جال بچھانا چاہتا ہے۔چیٹم ہاؤس، لندن کی ماہر چارو لتا ہُوگ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس بندرگاہ میں مدد چین کے لیے ضروری ہے کیونکہ وہ سری لنکا میں اپنے آپ کو مظبوط کرنا چاہتا ہے۔ یہ شراکت داری سری لنکا کے لیے بھی ضروری ہے، اس طرح سری لنکا کا بھارت اور مغربی دنیا پر سے انحصار کم ہو جائے گا۔
چارو لتا ہُوگ کے مطابق اس معاملے میں بھارت کس قدر پریشان ہے یہ کہنا تو مشکل ہے مگر بھارت کو تشویش ضرور ہوگی کیونکہ یہ بات خطے میں بھارت کے اثرورسوخ کو چیلنج کرتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی اہم ہے کہ مئی2009ء میں تامل ٹائیگرزکے ساتٰھ جنگ کے آخری ایام میں چین نے سری لنکا کو ہتھیار فراہم کیے تھے، جن کی مدد سے اسے یہ جنگ جیتنے میں آسانی ہوئی تھی۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس تعاون کے بعد سری لنکا کا بھارت پر سے نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی انحصار بھی بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔
بھارت کا سری لنکا پر ابھی بھی کافی ثقافتی اثرورسوخ موجود ہے، جو کہ آگے چل کر سری لنکا اور چین کی حالیہ دوستی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
سری لنکا کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ نئی بندرگاہ رواں سال نومبر سے کام شروع کردے گی۔ آغاز میں دو ہزار پانچ سو بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہو سکیں گے۔ اس طرح سری لنکا کی واحد بندرگاہ کولمبو پر سے کچھ دباؤ کم ہو جائے گا۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت: عدنان اسحاق