سری لنکا: ’ٹائیگرز‘ کی شکست کے بعد پہلے صدارتی انتخابات
26 جنوری 2010مہیندا راجا پاکسے نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ دوسری مدت کے لئے بھی ملک کے صدر منتخب ہوں گے تاہم ’تامل رائے دہندگان ان کی اس امید پر پانی پھیر سکتے ہیں۔‘
سری لنکا میں گزشتہ برس مئی میں فوج نے ایک بڑے آپریشن کے نتیجے میں 25 سالہ مسلح تامل تحریک کو کچلنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس آپریشن کی ’کامیابی‘ کے لئے صدر راجا پاکسے کی کوششوں کو خوب سراہا گیا۔ تاہم اقوام متحدہ کے محتاط اندازوں کے مطابق مسلح باغی تنظیم ’لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام‘ یا LTTE کے خلاف فوجی آپریشن میں کم از کم ’دس ہزار تامل شہری بھی مارے گئے۔‘
راجا پاکسے گزشتہ چار دہائیوں سے سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وکیل کی تربیت حاصل کرنے والے راجاپاکسے سن 1970ء میں سری لنکن پارلیمان میں سب سے کم عمر رکن بنے۔ سن 2005ء میں وہ پہلی مدت کے لئے صدارتی عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کا تعلق جنوبی سری لنکا سے ہے اور سنہالیس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
راجا پاکسے کے صدر بننے کے وقت سری لنکن حکومت اور تامل باغیوں کے درمیان فائر بندی کا ایک ’غیر یقینی اور مبہم‘ معاہدہ چل رہا تھا۔ تامل علٰیحدگی پسندوں کے ساتھ امن مذاکراتی عمل کی ناکامی کے بعد راجا پاکسے نے سن 2006ء میں اپنے بھائی گوتابایا راجا پاکسے کے ساتھ مل کر تامل ٹائیگرز کو مکمل شکست دینے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں راجا پاکسے کے دوسری بار صدر بننے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کی دلیل یہ ہے کہ بیشتر سنہالیس ووٹرز سمجھتے ہیں کہ راجا پاکسے کی کوششوں کی وجہ سے ہی ملک میں پچیس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔
لیکن بیشتر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تامل باغیوں کے خلاف آپریشن کے بعد ملک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، جس سے بہت سارے شہریوں کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ آپریشن میں تامل شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث تامل ووٹرز راجا پاکسے سے ناراض بھی ہیں۔ ان سب باتوں کا فائدہ راجا پاکسے کے سب سے مضبوط حریف جنرل ریٹائرڈ سراتھ فونسیکا کو ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار جہان پریرا کولمبو میں قائم تھنک ٹینک ’نیشنل پیس کونسل‘ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’تاملوں نے علٰیحدگی پسند سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے مین سٹریم سیاست میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا ہے، کم از کم ان انتخابات میں۔ ملک کے بہتر مستقبل کے لئے یہ ایک اچھی بات ہے۔‘‘ جہان پریرا کے مطابق راجا پاکسے سے بعض حکومتی حلقے بھی ناراض ہیں کیونکہ صدر کے تین بھائی انتخابات میں ان کی کامیابی کے لئے پردے کے پیچھے کام کر رہے ہیں۔’’صدر راجا پاکسے پر اقربا پروری اور بدعنوانی کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ راجا پاکسے کو اپنی ساکھ بہتر کرنے کے لئے تمام خدشات کو دور کرنا ہوگا۔‘‘
دریں اثناء سری لنکا میں صدارتی الیکشن سے قبل متعدد پرتشدد واقعات میں پانچ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم ہفتہ کے روز اپنے اختتام کو پہنچی۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر